تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

عالمی یومِ‌ آب: پانی کی اہمیت اور مسائل

ہر سال 22 مارچ کو عالمی یومِ آب یا پانی کا دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد لوگوں میں پانی کی اہمیت اور انسانی آبادی کو پانی کی عدم دست یابی کی وجہ سے درپیش مشکلات کو زیر بحث لانا ہے۔ اس دن لوگوں کو گھٹتے ہوئے آبی ذخائر یا پانی کی قلّت کے مسئلے پر بھی آگاہی دی جاتی ہے۔

”طبِ نبوی اور جدید سائنس“ کے مؤلف”ڈاکٹر خالد غزنوی“ رقم طراز ہیں کہ ”جدید تحقیق سے یہ بات اب معلوم ہوئی ہے کہ کُرّۂ ارض پر زندگی کی ابتداء بھی پانی سے ہوئی۔ اس حقیقت کو مدّتوں پہلے قرآن مجید نے یوں بیان کیا، ”کیا ان کافروں نے یہ خیال نہ کیا کہ آسمان اور زمین جو کہ دونوں پہلے بند تھے۔ پس ہم نے ان کو کھولا (یعنی آسمان سے پانی برسایا اور زمین سے پیداوار کی، اور ہم نے ہر جان دار چیز کو پانی سے پیدا کیا، تو پھر کیا (اس پر بھی) ایمان نہیں لاتے۔“ پانی سے زندگی شروع ہوتی ہے اور وہی اس کا غالب جزو ہے اور اسی پر مدارِ حیات ہے۔“

بلاشبہ زندگی کی بقا کے لیے صاف ہوا کے بعد سب سے اہم چیز خالص و صاف پانی ہے۔

”امام ابنِ القیم الجوزیہ“ طبِ نبویﷺ میں رقم طراز ہیں: ”پانی زندگی کا مادہ اور مشروبات کا سردار ہے، عناصرِ اربع میں سے ایک بلکہ اس کا اصلی رُکن بھی ہے اس لیے کہ آسمان اس کے بخارات سے پیدا کیے گئے اور زمین کی تخلیق اس کے جھاگ سے عمل میں آئی اور ہر جان دار چیز اللّٰہ نے پانی ہی سے بنائی ہے۔“

اورممتاز قطعہ نگار انور شعور پانی کو بابِ حیات قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:

زندگی ہے اس سے مٹی میں
یہ ہی بابِ حیات ہوتا ہے
یہ نہ ہو تو بھلا حیات کہاں
آب آبِ حیات ہوتا ہے

گویا زندگی کی بقا کا انحصا ر پانی پر ہے۔

دنیا میں سب سے زیادہ پائی جانے والی شے اور لازمی جزوِ حیات پانی ہے۔ایک اندازے کے مطابق دنیا کے کل رقبے کا تین چوتھائی پانی پر مشتمل ہے اور ایک چوتھائی خشکی پر۔ پانی کی مقدار 330 ملین مکعب فٹ ہے جس میں سے 79 فیصد نمکین سمندری پانی ہے۔ دنیا کے باقی پانی میں سے 2 فیصد قطبین سائبریا اور دوسرے برفانی علا قوں میں منجمد برف کی صورت ہے اور صرف ایک فیصد دریاؤں جھیلوں ندی نالوں اور تالابوں کی شکل میں ملتا ہے۔ حیرت انگیز اور دل چسپ امر یہ ہے کہ سمندروں میں نمک کی مقدار انسانی جسم میں پائی جانے والے نمکیات سے براہِ راست تناسب میں ہے۔

ایک عام انسان کو اپنی اور گھر کی روزمرہ ضروریات کے لیے 30 گیلن پانی درکار ہوتا ہے اور یہ پانی عموماً دریا، ندی، نالوں، نہروں، تالاب، جھیلوں، چشموں، کاریز اور کنوؤں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ دریاؤں، نہروں اور ندی نالوں کے بہتے پانی پر سورج کی روشنی اور لہروں کی اُلٹ پلٹ سے آکسیجن کے اثرات سے گدلا ہونے کے باوجود پانی کسی بیماری کا باعث نہیں بنتا۔ اس لیے ان ذرایع سے حاصل کیے جانے والے پانی کو دین میں‌ پاک قرار دیا گیا ہے۔ اس سے نہ صرف پیاس بجھائی جا سکتی ہے بلکہ اس سے نہانا اور وضو کرنا بھی جائز ہے۔

پانی کے معیار کا اندازہ یوں تو لیبارٹریز سے ہو جاتا ہے جہاں پانی ٹیسٹ کیا جاتا ہے لیکن جہاں یہ سہولت میسر نہ ہو تو کیا کیا جائے؟ یہ ایک غور طلب مسئلہ ہے جس کا حل یہ حدیثِ پاک بتاتی ہے۔ ”اور جب پانی کی مقدار چالیس مشکوں سے زیادہ ہو جائے تو نجاست اُس پر غلبہ نہیں پاتی۔“

اگر سمندری پانی میں آلودگی کا خدشہ ہے تو اسے صاف کرنے کی بہت مفید ترکیب امام ابن القیم نے یہ بتائی ہے کہ پانی کے دیگچے کو آگ پر رکھ کر اُوپر کوئی موٹا اُونی کمبل یا نمدا رکھ دیا جائے، پانی کے بخارات اُڑ کر اُونی کپڑے میں جمع ہوں گے، بعد میں نچوڑ کر استعمال کر لیا جائے۔

بارش رحمتِ خُداوندی ہے اور بارش کا پانی ہمار ے لیے انعام ہے۔ سائنس میں بارش برسنے کے عمل کو water cycle کہا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین پر جتنا بھی پانی موجود ہے۔ قدرت اس کی ایک بوند بھی ضائع نہیں کرتی۔ اللہ تعالیٰ نے بارش کے پانی کو بابرکت اور مبارک قرار دیا ہے۔بارش کا پانی بے حد مفید ہے لیکن خیال رہے کہ بارش کا پانی اگر پینا ہو یا بطور دوا استعمال کرنا ہے تو بارش برستے ہی نہ پییں، جب بارش پاک اور صاف ہو جائے تو استعمال میں لے آئیں۔ بارش کا پانی محض دس منٹ کی بارش کے بعد پینے کے لیے محفوظ ہو جاتا ہے اور مُفید بھی۔

پانی کی طبی افادیت مُسلّم ہے۔ آنتوں میں غذا کو رقیق کر کے آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے۔ پانی کا بَر وقت استعمال غذا ہضم کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ آبی معالجے یعنی hydrotherapy ایک امریکی طریقۂ علاج ہے، اس میں مریض کو مختلف صورتوں میں پانی پلایا اور نہلایا جاتا ہے۔ جرمنی میں بیماریوں کے علاج کے لیے غسل کے طریقے رائج ہیں جن کے تحت گرم پانی کے ٹب میں مریضوں کو مختلف طریقوں سے دیر تک بٹھایا جاتا ہے۔ قدیم اطبا نے گرم پانی کی دھار اور غسل سے بیماریوں کا علاج کیا ہے۔

یوں تو پانی صحت کے لیے بے حد مفید ہے۔ لیکن جب یہی پانی آلودہ ہو جاتا ہے تو ہمارے لیے سخت مضر ہو جاتا ہے، کیونکہ آلودہ پانی پینے سے ہیضہ، اسہال، پیچش، تپِ محرقہ، یرقان کی بیماریاں ہو سکتی ہیں۔ وہ غذائیں جن میں وافر مقدار میں پانی موجود ہو ان کے استعمال کرنے کے فوراً بعد پانی نہیں پینا چاہیے، مثلاً دودھ، چائے، کھیرا، خربوز، ککڑ ی وغیرہ۔ اس کے علاوہ گرم اور ترش اشیاء کے استعمال کے بعد بھی پانی پینے سے گریز کرنا چاہیے۔ بلاشبہ پانی ہماری زندگی کی اوّلین ضرورت ہے جس کا درست اور ضروری مقدار میں استعمال ہمیں بہت سے بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ لیکن الَمیہ ہے کہ دنیا کو قلتِ آب کا سامنا ہے۔ پانی بقائے حیات کے لیے کتنا اہم ہے اس سے تو ہم سب ہی واقف ہیں لیکن ہماری بد نصیبی ہے کہ فضائی آلودگی اور دیگر کئی اسباب کے تحت صاف پانی کی فراہمی سنگین مسئلہ بن گئی ہے۔ پانی کا زیاں بھی ایک مسئلہ ہے۔

پانی کی عدم دستیابی اگر کچی بستیوں کے مکینوں کا مسئلہ ہے تو پوش علاقوں کے وسیع و عریض بنگلوں کے بے فکرے رہائشی بھی اس اہم مسئلے سے دوچار ہیں۔ پانی کی غیر منصفانہ تقسیم بھی تکلیف دہ امر ہے۔ مہنگے داموں پانی کی فروخت کا سلسلہ جاری ہے اور پینے اور استعمال کے لیے عوام پانی کے منہ مانگے دام دینے پر مجبور ہیں۔ شہر ہو یا گاؤں آلودہ پانی کی فراہمی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اور یہ مسئلہ تشویشناک ہی نہیں فوری توجہ چاہتا ہے۔

(شائستہ زرؔیں کی تحریر)

Comments

- Advertisement -