اشتہار

28 مئی کو ترکیہ کی صدارت کا تاج کس کے سر سجے گا؟ عالمی تجزیہ کاروں کی رائے

اشتہار

حیرت انگیز

ترکیہ الیکشن قوانین کے مطابق کوئی بھی امیدوار 50 فیصد ووٹ حاصل نہیں کر سکا جس کے باعث اگلے صدر کا حتمی فیصلہ 28 مئی کو ہوگا تاہم اردوان کو حریفوں پر نفسیاتی برتری حاصل ہے۔

ترکیہ میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کے لیے گزشتہ اتوار کو پولنگ ہوئی تھی صدر رجب طیب اردوان کا مقابلہ متحدہ اپوزیشن جماعت کے رہنما کمال قلیچ داراوغلو سے تھا تاہم ترکیہ الیکشن قوانین کے مطابق کوئی بھی امیدوار 50 فیصد ووٹ نہیں لے سکا جس کے باعث اب اگلے صدر کا حتمی فیصلہ 28 مئی کو رن آف میں ہی ہوسکے گا تاہم اردوان کو اپنے حریفوں پر نفسیاتی برتری حاصل ہے۔

اس حوالے سے عرب میڈیا میں ایک تجزیہ پیش کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اکثر تجزیہ کاروں کے خیال میں کمال قلیچ‌ داراوغلو اور ان کی چھ جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن اتحاد کو 28 مئی کو ہونے والے رن آف میں اردوغان کو شکست دینا مشکل ہو جائے گا۔

- Advertisement -

طیب اردوان کی اس ’زبردست جیت‘ پر معاشی امور کے ماہر ٹموتھی ایش نے کہا کہ صدر ایسی مہارت رکھتے ہیں کہ ترک عوام خواہ وہ قوم پرست ہوں یا قدامت پسند سب انہی کے حامی ہیں۔

امریکی کنسلٹنگ فرم ٹینیو کے ڈائریکٹر والفنگ پیکولی کا کہنا ہے کہ اردو ان اپنے حریفوں پر واضح نفسیاتی برتری حاصل کر چکے ہیں اور آئندہ دو ہفتوں میں وہ اپنے قومی سلامتی کے بیانیے کو مزید پروان چڑھائیں گے جب کہ ریسرچ فرم یوریشیا گروپ سے وابستہ ایمر پیکر کے اندازے کے مطابق رن آف یعنی انتخابات کے دووسرے مرحلے میں اردوغان کے کامیاب ہونے کا 80 فیصد امکان ہے۔

ایمر پیکر کے مطابق غیرحتمی نتائج سے یہ واضح ہے کہ اردوان اور ان کے اتحادیوں نے دہشت گردی، سکیورٹی اور خاندانی اقدار کے موضوعات پر انتہائی کامیابی کے ساتھ اپنا پیغام پہنچا کر عوام کی حمایت حاصل کی، اس سے قطع نظر کہ ووٹرز کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہی ہے۔

صدر طیب اردوان کے ایک چالیس سالہ حامی حامد کورو مہموت نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اردو ان ہی جیتیں گے۔ وہی حقیقی لیڈر ہیں۔ ترک عوام کو ان پر بھروسہ ہے۔ اور وہ ترکیہ کے لیے وژن رکھتے ہیں۔ اردوان کے ووٹر نے کہا کہ یقیناً معیشت، تعلیم اور پناہ گزینوں سے متعلق پالیسیوں کے حوالے سے بہتری کی ضرورت ہے لیکن ہمیں یہ معلوم ہے کہ وہی تمام مسائل کا حل نکال سکتے ہیں۔

رائے شماری میں اردوان کے حریف کمال قلیچ‌ داراوغلو کی جیت کی پیشگوئی کی گئی تھی تاہم کنسلٹنٹ انتھونی اسکنر کا کہنا ہے کہ سروے کے نتائج نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ انتہائی منقسم معاشرے میں عوامی رائے کو جاننا مشکل ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات سے ہونے والے بیشتر عوامی سروزے کے نتائج اردوغان کو حاصل اس قدر حمایت کی عکاسی نہیں کرتے اور اس سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ انتخابات سے قبل سامنے آنے والی عوامی رائے پر انتہائی احتیاط برتنی چاہیے۔

انتخابات سے قبل پولز میں سامنے آنے والی عوامی رائےکے برعکس اور ترکی میں بدترین معاشی بحران کے باوجود صدر اردوغان کے حق میں 49.5 فیصد ووٹ پڑے ہیں جبکہ ان کے حریف کمال قلیچ‌ داراوغلو کو 44.9 فیصد اور قوم پرست امیدوار سینان اوگان کو 5.2 فیصد ووٹ پڑے، ووٹنگ کا مجموعی ٹرن آؤٹ 88 فیصد رہا۔

ترک صدر اردوان آئندہ رن آف کے لیے پرامید ہیں اور کہتے ہیں کہ ووٹرز پھر سے ووٹ ڈالیں اور اپوزیشن لیڈر کمال اوغلو نے کہا 28 مئی کو جو بھی فیصلہ آئے گا اسے قبول کریں گے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں