جمعہ, مئی 24, 2024
اشتہار

ورلڈ کپ 2011، آسٹریلیا کا 12 سالہ حکمرانی کا خاتمہ، بھارت نے اپنی سر زمین پر چیمپئن بن کر تاریخ رقم کر دی

اشتہار

حیرت انگیز

آئی سی سی ایک روزہ عالمی کپ کا 10 واں ایڈیشن ورلڈ کپ 2011 نئی تاریخ رقم کر گیا اور پہلی بار کوئی ٹیم اپنی سر زمین پر ٹرافی اٹھانے میں کامیاب ہوئی۔

ورلڈ کپ 2011 کا میگا ایونٹ 19 فروری سے 2 اپریل تک بھارت، سری لنکا کے ساتھ پہلی بار بنگلہ دیش کی سرزمین پر بھی کھیلا گیا۔ اس ایونٹ کے لیے پہلے پاکستان بھی چوتھے میزبان ملک کے طور پر شامل تھا تاہم سیکیورٹی خدشات کے ساتھ بھارت کے ساتھ سیاسی وجوہات کی بنا پر دو بار عالمی کپ کی بہترین میزبانی کرنے والے ملک پاکستان کو تیسری بار میگا ایونٹ کی میزبانی سے محروم کر دیا گیا اور اس کے حصے کے میچز دیگر تین ممالک میں تقسیم کر دیے گئے۔

ورلڈ کپ 2011 کی خاص اور دلچسپ باتیں:

- Advertisement -

اس ورلڈ کپ کی سب سے خاص بات تو عالمی کپ کی 30 سالہ تاریخ میں نئے باب کا رقم ہونا تھا جب کسی بھی میزبان ملک (بھارت) نے پہلی بار اپنی س زمین پر ورلڈ کپ کی ٹرافی اٹھا کر ورلڈ چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کرکے نئی تاریخ رقم کی ورنہ اس سے قبل 9 عالمی کپ میں میزبان ٹیمیں یہ حسرت لیے ہی ایونٹ سے باہر ہوتی رہیں۔

اسی ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کی 12 سالہ (اب تک کی کسی بھی ملک کی کرکٹ پر طویل ترین) طویل حکمرانی کا خاتمہ ہوا اور کینگروز نے 1999 سے ورلڈ کپ ٹرافی تھامنے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اس کو بریک لگا۔ چار بار کی عالمی چیمپئن اس میگا ایونٹ میں فائنل فور میں بھی جگہ نہ بنا پائی۔

اس ورلڈ کپ میں جہاں آسٹریلیا کا 12 سالہ حکمرانی کا خاتمہ ہوا وہیں پاکستان کی میگا ایونٹ کے فائنل فور میں اتنے ہی عرصے بعد واپسی ہوئی۔ اس سے قبل 2003 اور 2007 کے میگا ایونٹس میں گرین شرٹس اپنی ناقص پرفارمنس کے باعث پہلے ہی راؤنڈ سے باہر ہو گئی تھی۔

چوتھی خاص بات فائنل سے قبل فائنل کھیلا گیا جو موہالی میں پاک بھارت ٹاکرے کی صورت میں ہوا۔ روایتی حریف پہلی بار کسی میگا ایونٹ سے سیمی فائنل میں مد مقابل آئے تو پوری دنیائے کرکٹ کی نگاہیں اسی میچ پر لگی رہیں۔ یہ میچ بھارت کی فتح پر اختتام پذیر ہوا لیکن نہایت مشکوک انداز میں کھیلے گئے اس میچ پر انگلیاں بھی اٹھائی گئیں۔

صرف پاک بھارت سیمی فائنل ہی نہیں بلکہ بھارت اور سری لنکا فائنل پر بھی بڑے الزامات عائد کیے گئے۔ سری لنکا کے وزیروں نے فائنل کو فکس اور بھارت کے ہاتھوں فروخت کرنے کے الزامات عائد کیے جس کے بعد وہاں حکومتی سطح پر تحقیقات بھی ہوئی۔

ورلڈ کپ کا فارمیٹ، شریک ٹیمیں:

اس میگا ایونٹ میں 14 ٹیموں نے شرکت کی جنہیں دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ 13 مقامات پر 42 راؤنڈ میچز سمیت 49 میچز کھیلے گئے۔

گروپ اے میں دفاعی چیمپئن آسٹریلیا، پاکستان، سری لنکا، نیوزی لینڈ، زمبابوے کے ساتھ کینیڈا اور کینیا کی ٹیموں کو شامل کیا گیا تھا جب کہ گروپ بی میں بھارت، جنوبی افریقہ، ویسٹ انڈیز، بنگلہ دیش کے ساتھ آئرلینڈ اور ہالینڈ کی ٹیموں کو رکھا گیا تھا۔

اس سے قبل تین ورلڈ کپ میں سپر 6 اور سپر 8 مرحلوں کی بنیاد پر کھیلے گئے تھے تاہم سابقہ ٹورنامنٹ میں بڑی بڑی ٹیموں کے ابتدئی طور پر ہی باہر ہو جانے کی وجہ سے آئی سی سی اور میزبان ممالک کو بڑے پیمانے پر خسارے کا سامنا رہا تھا، اس لیے 2011 میں سابقہ فارمیٹ تبدیل کر کے 1996 کے طریقہ کار کے مطابق کھیلا گیا۔ جس میں گروپ میچز کے بعد کوارٹر فائنلز، سیمی فائنلز اور فائنل شیڈول کیا گیا۔

ہر گروپ ایسے تشکیل دیا گیا کہ چار ٹیسٹ ٹیموں کا ایک گروپ میں رکھا گیا اگر اپ سیٹ نہ ہوتے تو تمام 8 ٹیسٹ ٹیمیں کوارٹر فائنل کے لیے کوالیفائی کرتیں۔

ورلڈ کپ کے کچھ انفرادی اور ٹیم کے بیٹنگ اور بولنگ ریکارڈز:

اس میگا ایونٹ میں کئی میچز میں ٹیموں نے رنز کے پہاڑ کھڑے کیے۔

بھارت نے اپنے افتتاحی میچ میں بنگلہ دیش کے خلاف 370 رنز کا مجموعہ ترتیب دیا جو اس میگا ایونٹ کا کسی بھی ٹیم کی جانب سے بنایا جانے والا سب سے بڑا اننگ اسکور رہا۔ نیوزی لینڈ نے کینیڈا کے خلاف 358 رنز اسکور بورڈ پر سجا کر دوسری بڑی اننگ اپنے نام کی۔

وریندر سہواگ نے ڈھاکا کے مقام پر بنگلہ دیش کے خلاف 140 گیندوں پر 175 رنز کی اننگ کھیل کر ٹورنامنٹ کی سب سے بڑی انفرادی اننگ کھیلنے کا اعزاز پایا۔ انگلینڈ کے اینڈریو اسٹائرس 158 رنز بنا کر دوسری بڑی اننگ کھیلنے میں کامیاب رہے۔

2011 کے میگا ایونٹ میں سب سے بڑی پارٹنر شپ سری لنکا کی جانب سے تھارنگا اور دلشان کی زمبابوے کے خلاف سامنے آئی جنہوں نے پالے کیلے میں پہلی وکٹ کے لیے 282 رنز بنائے۔

اس میگا ایونٹ میں اپنا آخری ورلڈ کپ کھیلنے والے ریکارڈ ساز سچن ٹنڈولکر ٹاپ اسکورر رہے جنہوں نے 482 رنز اسکور کیے جب کہ سری لنکا کے دلشان نے بھی اتنا ہی مجموعہ ترتیب دیا۔

بولرز میں پاکستانی کپتان اسٹار آل راؤنڈر شاہد آفریدی رہے جنہوں نے 21 وکٹیں حاصل کیں۔ بھارتی بولر ظہیر احمدنے بھی اتنی ہی وکٹیں حاصل کی لیکن وہ ورلڈ کپ میں ایک میچ زیادہ کھیلنے کے باعث دوسرے نمبر پر رہے۔

سری لنکا کے وکٹ کیپر سنگا کارا 14شکار کے ساتھ تمام ہم عصر وکٹ کیپر سے آگے رہے۔

دلچسپ اور سنسنی خیز میچز:

27 فروری کو بنگلورو میں بھارت اور انگلینڈ کے درمیان میچ انتہائی ڈرامائی رہا۔ بھارت نے پہلے کھیل کر 338 رنز بنائے انگلش ٹیم جوابمیں مقررہ اوورز میں اتنے ہی رن بنانے میں کامیاب رہی اور یوں یہ میچ ٹائی ہو گیا۔

اس کامیابی کے کچھ دن بعد اسی شیر جیسی انگلش ٹیم کو 2007 کے ورلڈ کپ میں پاکستان کو ورلڈ کپ سے باہر کرنے والی آئرلینڈ سے شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انگلش ٹیم کے 327 رنز آئرلینڈ کے لیے تر نوالہ ثابت ہوئے اور وہ تین وکٹوں سے یہ میچ جیت گئی۔

اس ورلڈ کپ میں سری لنکا کو شکست دینے والی بنگلہ دیش نے انگلینڈ کو بھی زیر کر دیا

گروپ میچز میں تین سے چار غیر متوقع نتائج سامنے آئے تاہم کوارٹر فائنل مقابلے سے قبل کوئی بڑا اپ سیٹ نہیں ہوا اور تمام بڑی ٹیسٹ ٹیمیں کوارٹر فائنل کے لیے کوالیفائی کر گئیں۔

گروپ اے میں پاکستان 10 پوائنٹس کے ساتھ سرفہرست رہا، سری لنکا ، آسٹریلیا نے 9’9 جب کہ نیوزی لینڈ نے 8 پوائنٹس حاصل کیے۔ گروپ بی میں جنوبی افریقہ 10 پوائنٹس کے ساتھ ٹاپ پر رہا ، بھارت کے 9 اور انگلینڈ کے 7 پوائنٹس تھے۔ ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش کے 6’6 پوائنٹس تھے تاہم بہتر رن ریٹ نے ویسٹ انڈیز کو آگے بڑھا دیا۔

کوارٹر فائنلز:

پہلے کوارٹر فائنل میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو با آسانی ہرا دیا۔ بھارت نے ورلڈ چیمپئن بننے کی ہیٹ ٹرک کرنے والی ٹیم آسٹریلیا کو شکست دے کر اس کی 12 سالہ حکمرانی ختم کی۔ تیسرے کوارٹر فائنل یں نیوزی لینڈ نے غیر متوقع طور پر جنوبی افریقہ کو 49 رنز سے شکست دی جب کہ چوتھے کوارٹر فائنل مین سری لنکا نے انگلینڈ کو 10 وکٹوں کی عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔

پہلا سیمی فائنل:

ورلڈ کپ 2011 کا پہلا سیمی فائنل نیوزی لینڈ اور سری لنکا کے درمیان 29 مارچ کو کولمبو میں کھیلا گیا جو میزبان نے با آسانی جیت لیا۔

نیوزی لینڈ کی پوری ٹیم پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 48.5 اوورز میں 217 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ سری لنکا نے مطلوبہ ہدف 47.5 اوورز میں 5 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کر لیا اور فتح یاب ہو کر تیسری بار ورلڈ کپ فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔ کپتان سنگاکارا 54 رنز بنا کر مین آف دی میچ رہے۔

دوسرا سیمی فائنل:

ورلڈ کپ 2011 کا دوسرا سیمی فائنل 30 مارچ کو روایتی حریفوں پاکستان اور بھارت کے درمیان موہالی میں کھیلا گیا جو دنیائے کرکٹ میں پاک بھارت ٹاکرے کے نام سے زیادہ مشہور ہے۔

اس اہم میچ کی خاص بات یہ تھی کہ اس کو دیکھنے کے لیے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی موہالی گئے تھے اور بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ کے ساتھ اسٹیڈیم میں میچ دیکھا تھا۔

 

ورلڈ کپ میں پاکستان انڈیا ٹاکرا: وہ کرکٹ مقابلے جن میں جذبات عروج پر تھے -  BBC News اردو

کرکٹ شائقین کے ساتھ دنیا بھر کی نظریں اس بڑے میچ پر لگی تھیں کیونکہ روایتی حریف میگا ایونٹ کی تاریخ میں چھٹی بار تاہم سیمی فائنل میں پہلی بار مدمقابل تھے۔ اس میچ میں بھی پاکستان کی ورلڈ کپ میں بھارت کے خلاف نہ جیتنے کی روایت برقرار رہی تاہم گرین شرٹس جس طرح 29 رنز سے یہ بڑا مقابلہ ہارا وہ کئی روز تک کرکٹ حلقوں کے ساتھ دونوں ملکوں میں موضوع بحث بنا رہا اور کرکٹ پر گہری نظر رکھنے والوں کو یہ شکست ہضم نہ ہوئی۔

اس میچ میں بھارت نے پہلے بیٹنگ کی تاہم پاکستانی بولرز نے انہیں بڑا اسکور کرنے سے روکے رکھا اور مقررہ 50 اوورز میں 9 وکٹوں کے نقصان پر 260 رنز تک محدود کر دیا۔

سچن ٹنڈولکر 85 رنز بنا کر ٹاپ اسکورر رہے اور مین آف دی میچ بھی رہے۔ تاہم امپائرز کی جانب سے بیٹر کے خلاف آؤٹ کی کئی اپیل پر امپائرز کا فیصلہ پاکستان کے خلاف رہا جس نے شکوک وشبہات کو جنم دیا۔

261 رنز کے ہدف کے تعاقب مین پاکستانی ٹیم 231 رنز پر ہمت ہار گئی۔

اس میچ اہم میچ میں شعیب اختر کو نہیں کھلایا گیا جس پر آج تک متضاد باتیں کی جاتی ہیں۔

فائنل مقابلہ:

ورلڈ کپ 2011 کا فائنل 2 اپریل کو بھارت اور سری لنکا کے درمیان ممبئی میں کھیلا گیا۔ اس سب سے بڑے مقابلے میں سری لنکا بھارت کو ٹف ٹائم دینے میں ناکام رہا اور 6 وکٹوں سے ہار گیا۔ دوسری جانب پورے ٹورنامنٹ میں آف کلر رہنے والے بھارتی کپتان مہیندر سنگھ دھونی جنہوں نے صرف 22 کی اوسط سے اسکور کر رکھا تھا۔ بڑے میچ کے بڑے کھلاڑی ثابت ہوئے اور فائنل میچ میں نا قابل شکست 91 رنز بنا کر اپنی ٹیم کو ہوم گراؤنڈ پر چیمپئن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

سچن ٹنڈولکر اس میچ میں اگر چہ ناکام رہا ،تاہم ان کے 21 سالہ کرکٹ کیرئیر میں یہ ایک بہترین لمحہ تھا جب وہ ورلڈ چیمپئن ٹیم کے رکن بنے۔

ممبئی کے وانکھیڈے سٹیڈیم میں کھیلا جانے والے اس فائنل میچ میں سری لنکا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 50 اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 274 رنز بنائے۔

بھارت کی جانب سے ہدف کے تعاقب میں سری لنکن ٹیم اس وقت مضبوط پوزیشن پر تھی جب پاکستان کے خلاف سیمی فائنل کے ہیرو اور اپنا آخری ون ڈے انٹرنیشنل کھیلنے والے سچن ٹنڈولکر 18 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئے تاہم پھر انڈیا نے اچانک پانسا پلٹ دیا۔ آئی لینڈر اپنی ناقص فیلڈنگ اور کمزور بولنگ کے باعث یہ میچ با آسانی ہار گئے۔

اس نتیجے کے ساتھ ہی سری لنکا میں طوفان برپا ہوگیا۔ سری لنکا پر میچ کو بھارت کو گفٹ اور بیچنے جیسے الزاماگ لگائے گئے جو معمولی فینز نہیں بلکہ سری لنکا کے اس وقت کے وزیر اسپورٹس مہندنندا التگمیج اور سابق سری لنکن کپتان ارجنا رانا تنگا بھی شامل تھے۔

اس وقت وزارت کھیل نے میچ کے حوالے سے کرمنل تحقیقات بھی شروع کی تھیں۔
دوسری جانب پاکستانی اسپیڈ اسٹار شعیب اختر کے لیے یہ ٹورنامنٹ ان کے کرکٹ کیریئر کا اختتام ثابت ہوا۔ سیمی فائنل میں پاکستانی بیٹر مصباح الحق کی سست بیٹنگ کی حکمت عملی بھی مشکوک رہی۔ یوراج سنگھ کا چیخیں مارنا اور رونا بھی خبروں میں رہا (واضح رہے کہ اس میگا ایونٹ کے بعد ان میں موذی مرض کینسر کی تشخیص ہوئی تھی جس کے کامیاب علاج کے بعد وہ آج صحت مند زندگی گزار رہے ہیں)۔

Comments

اہم ترین

ریحان خان
ریحان خان
ریحان خان کو کوچہٌ صحافت میں 25 سال ہوچکے ہیں اور ا ن دنوں اے آر وائی نیوز سے وابستہ ہیں۔ملکی سیاست، معاشرتی مسائل اور اسپورٹس پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ قارئین اپنی رائے اور تجاویز کے لیے ای میل [email protected] پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔

مزید خبریں