سال 2022 پاکستان کے لیے ایک مشکل اور نامہربان سال ثابت ہوا، پورا سال عام انسان کی بہبود، تعلیم اور صحت نظر انداز کی جاتی رہی اور ملک سیاسی میوزیکل چیئر کی نذر ہوگیا۔
سال کے وسط میں سیلاب نے ایک تہائی ملک کو ڈبو دیا اور ایک بدترین انسانی المیے نے جنم لیا، ملک کی معیشت جو سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پہلے ہی دگرگوں تھی، سیلاب کے بعد آخری سانسیں لینے لگی اور ملک ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ سر پر آن کھڑا ہوا۔
نیا سال شروع ہونے کے ساتھ ملک میں استحکام اور بہتری کی کچھ امید ہے تاہم بظاہر یوں لگتا ہے کہ رواں برس ملک کو پہنچنے والے جھٹکوں کا اثر تادیر قائم رہے گا۔
آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ رواں برس ملک میں کیا اہم واقعات اور المناک حادثات پیش آتے رہے۔
جنوری
اومیکرون کا پھیلاؤ
نیا سال شروع ہوتے ہی پاکستان میں کرونا وائرس کی قسم اومیکرون کے کیسز سامنے آنا شروع ہوگئے اور یہ بڑھتے بڑھتے اس حد تک جا پہنچے کہ حکومت کو ایک بار پھر پابندیاں عائد کرنا پڑیں۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری اور فروری میں اومیکرون سمیت کرونا وائرس کے یومیہ ہزاروں کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ روزانہ درجنوں اموات بھی ہوتی رہیں۔
جنوری میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی ملگ گیر یومیہ شرح 12 فیصد تک جا پہنچی تھی۔
ایسے میں این سی او سی کی جانب سے کراچی، لاہور، حیدر آباد اور اسلام آباد میں ان ڈور سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی جبکہ تعلیمی سرگرمیاں بھی محدود کردی گئیں۔ یہ پابندیاں مارچ کے وسط تک جاری رہیں۔
سانحہ مری ۔ برفانی طوفان کے دوران ہوٹل مالکان فرعون بن گئے
7 اور 8 جنوری کی شب پاکستان کے معروف سیاحتی مقام مری میں دلدوز سانحہ پیش آیا جب سیاحوں کے رش کی وجہ سے مری جانے والا راستہ بند ہوگیا اور گاڑیوں میں رات گزارنے والے درجنوں سیاح شدید ٹھنڈ اور برف باری کی وجہ سے جاں بحق ہوگئے۔
7 جنوری کو مری میں شدید برفانی طوفان آیا جس کے دوران درجہ حرارت منفی 8 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر گیا۔ برف باری دیکھنے کے لیے پہنچنے والے سیاحوں کے رش اور برف باری کی وجہ سے راستے بند ہوگئے اور سیاح اپنی گاڑیوں میں ہی پھنس گئے۔
تاہم اگلی صبح گاڑیوں سے بے شمار لاشیں برآمد ہوئیں، یہ اموات شدید ٹھنڈ کی وجہ سے ہوئیں جبکہ اکثر افراد اپنی گاڑی کا ہیٹر چلا کر سوئے جس سے نکلنے والی زہریلی گیس نے تفریح کے لیے آئے ہوئے سیاحوں کی جان لے لیں۔
عینی شاہدین کے مطابق اس رات مری کے تمام ہوٹل مالکان نے سفاکی کے نئے ریکارڈز قائم کیے اور پریشان حال سیاحوں سے ایک رات کے کمرے کے لیے 70 ہزار روپے تک طلب کیے۔ پانی، چائے اور انڈے جیسی معمولی اشیا کی قیمت 3، 3 ہزار روپے وصول کی گئی۔
مشکل میں پھنسے سیاحوں نے گاڑیوں میں ہی رات گزارنے میں عافیت سمجھی اور پھر اگلی صبح کا آغاز دلدوز سانحے سے ہوا جب گاڑیوں میں موجود 23 افراد کے جاں بحق ہونے کا انکشاف ہوا۔
المناک سانحے اور مقامی افراد کی سفاکی کی گونج عالمی میڈیا میں بھی سنائی دی۔
فروری
نور مقدم قتل کیس ۔ ظاہر جعفر کے تمام حربے بیکار گئے، عدالت نے سزائے موت سنا دی
24 فروری کو اسلام آباد کی سیشن عدالت نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے قاتل ظاہر جعفر کو سزائے موت سنا دی، مجرم کو سزائے موت کے ساتھ زیادتی، اغوا اور دفعہ 342 کے جرم پر 36 سال قید کی سزا بھی سنائی گئی۔
نور مقدم قتل کیس ہائی پروفائل اور ملک کا بہیمانہ ترین قتل تھا، مجرم ظاہر جعفر نے سابق پاکستانی سفارت کار شوکت مقدم کی 27 سالہ بیٹی اور اپنی دوست نور مقدم کو تیز دھار آلے سے قتل کرنے کے بعد اس کا سر کاٹ کر جسم سے الگ کردیا۔
فرانزک رپورٹ کے مطابق مجرم نے قتل سے پہلے مقتولہ کو جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا، مقدمے میں مجرم کے والدین کو بھی نامزد کر کے انہیں زیر حراست رکھا گیا جن کی بروقت مدد سے اندوہناک سانحہ ہونے سے روکا جاسکتا تھا۔
وزیر اعظم کا روس کا اہم دورہ ۔ لیکن وقت نامناسب
فروری کے تیسرے ہفتے میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے روس کا دورہ کیا، یہ سنہ 1999 کے بعد سے کسی پاکستانی وزیر اعظم کا پہلا دورہ روس تھا۔ تاہم ان کا یہ دورہ اس وقت شدید تنقید کی زد میں آگیا جب دورے کے دوران ہی 24 فروری کو روس نے یوکرین پر حملہ کردیا۔
روس اور یوکرین کی کشیدگی کے پیش نظر پاکستانی وزیر اعظم کے دورہ روس کو بین الاقوامی طور پر ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جارہا تھا اور یوکرین پر حملے کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوگیا۔
سفارتی ماہرین کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کے دورے سے مغربی دنیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوا۔
مارچ
لمپی اسکن ڈیزیز سے ہزاروں مویشیوں کی اموات
مارچ میں جانوروں میں پھیلنے والی لمپی اسکن ڈیزیز کا انکشاف ہوا جس نے تیزی سے ملک بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، ڈیری اور کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن نے حکومت سے صوبائی سرحدیں بند کرنے اور جانوروں کی نقل و حرکت روکنے کی درخواست کی۔
بیماری کی وجہ سے لوگوں نے احتیاطی طور پر گوشت خریدنا چھوڑ دیا جس کے بعد گوشت کوڑیوں کے مول بکنے لگا اور چکن کی قیمت آسمان پر جا پہنچی۔
ستمبر 2022 تک اس بیماری کے ہاتھوں 9 ہزار جانوروں کی ہلاکت رپورٹ ہوئی۔
پشاور کا قصہ خوانی بازار پھر دہشت گردوں کے نشانے پر ۔ امام بارگاہ میں خودکش دھماکا
4 مارچ جمعہ کے روز پشاور کے معروف قصہ خوانی بازار کی گلی کوچہ رسالدار میں مرکزی امام بارگاہ کو نماز جمعہ کے دوران خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا۔
افغان حملہ آور کے ساتھیوں نے امام بارگاہ میں داخل ہونے سے قبل دروازے پر موجود پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی جس کے بعد حملہ آور نے اندر داخل ہو کر خود کو دھماکے سے اڑا لیا، حملے میں 63 افراد جاں بحق ہوئے۔
شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
خانیوال میں بھارتی میزائل آ گرا ۔ بھارتی حکام کا غلطی کا اعتراف
9 مارچ کی شام صوبہ پنجاب کے ضلع خانیوال کی تحصیل میاں چنوں میں ایک بڑی چیز زوردار دھماکے سے آ گری جس سے ایک ہوٹل اور گھر کی چھت مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔ یہ ’چیز‘ بعد میں بھارتی براہموس میزائل نکلا۔
بھارتی وزارت دفاع نے اسے غلطی قرار دیا اور بتایا کہ 9 مارچ کو معمول کی دیکھ بھال کے دوران ایک تکنیکی خرابی کی وجہ سے میزائل حادثاتی طور پر فائر ہوا۔
میزائل ان آرمڈ تھا اور اس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تاہم اس نے بھارت کی دفاعی صلاحیتوں پر سوال کھڑے کردیے۔
پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر سمجھداری کا مظاہرہ کیا گیا تاہم بھارتی حکام سے سخت سوالات پوچھے گئے اور دفاعی حکام کی اس نااہلی پر وضاحت طلب کی گئی۔
پارلیمنٹ لاجز میں پولیس آپریشن
10 مارچ کو جمعیت علمائے اسلام ف کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام فورس کے 60 سے زائد کارکنوں کے پارلیمنٹ لاجز میں داخلے کی اطلاع پر پولیس حرکت میں آئی اور پولیس اور ایلیٹ فورس کی بھاری نفری پارلیمنٹ لاجز میں داخل ہوگئی۔
اس موقع پر شدید بدنظمی اور دھکم پیل ہوئی، پولیس نے انصار الاسلام کے تمام کارکنوں کو گرفتار کیا جبکہ جے یو آئی ف کے ارکان اسمبلی مولانا صلاح الدین ایوبی اور جمال دین کو بھی حراست میں لے لیا۔
جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اس موقع پر اپنی گرفتاری دینے کا بھی اعلان کیا۔ کارکنوں کی گرفتاری کے بعد جے آئی یو ف نے ملک بھر میں احتجاج کرتے ہوئے راستے اور شاہراہیں بند کردیں۔
سائفر ۔ جس نے پاکستانی سیاست میں بھونچال مچا دیا
27 مارچ کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے جیب سے ایک خط نکال کر لہرایا اور دعویٰ کیا کہ بیرون ملک سے ان کی حکومت گرانے کی سازش ہو رہی ہے اور انہیں خفیہ طور پر لکھ کر دھمکی دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے خلاف آنے والی تحریک عدم اعتماد کا تعلق بھی اسی دھمکی آمیز خط سے ہے۔
اس کے بعد ملک بھر اور میڈیا کی گفتگو کا مرکز یہ امریکی مراسلہ ہوگیا جس کے بارے میں خود تحریک انصاف کے رہنماؤں نے بھی کئی بار بیانات بدلے۔
ستمبر میں عمران خان کی ایک آڈیو بھی سامنے آئی جس میں انہیں اس دھمکی آمیز مراسلے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔ آڈیو میں سابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کو سائفر کے حوالے سے ایک میٹنگ بلانے کا مشورہ دیتے سنا جا سکتا ہے۔
عمران خان یہ بھی کہتے سنے گئے کہ اس اجلاس کے منٹس وہ خود تیار کریں گے جن میں اپنی مرضی کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔
اپریل
پاکستان کی تاریخ کی پہلی کامیاب تحریک عدم اعتماد ۔ وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا گیا
8 مارچ 2022 کو پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعتوں کے الائنس پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا اور قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن دائر کی۔
پی ڈی ایم نے عمران خان پر بدترین حکمرانی اور معیشت کی بد انتظامی کا الزام لگایا۔
25 مارچ کو پارلیمان کا اجلاس شروع ہوا اور مرحوم اراکین کے لیے دعا کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے پارلیمانی کنونشن کی روشنی میں اجلاس فوری طور پر 28 مارچ 2022 تک ملتوی کردیا۔
28 مارچ کو قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے اجلاس ایک بار پھر 31 مارچ تک ملتوی کردیا۔
31 مارچ کو ایک اور اجلاس ہونے اور ملتوی ہونے کے بعد 3 اپریل کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو آئین کے آرٹیکل 5 کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ اسی شام عمران خان نے اسمبلیاں تحلیل کرنے اور نئے انتخابات کا اعلان کردیا۔
اس کے بعد پی ڈی ایم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس کے بعد 7 اپریل کو سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے اور عدم اعتماد کے ووٹ کو روکنے کی کوشش کو مسترد کردیا۔
عدالتی حکم کے مطابق 9 اپریل کی صبح اجلاس ایک بار پھر شروع ہوا تاہم اسپیکر اسد قیصر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کی کارروائی کو مؤخر کرتے رہے جس پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے انہیں متنبہ کیا کہ وہ توہین عدالت کے مرتکب ہورہے ہیں۔
اس روز اسمبلی کا اجلاس 4 بار معطل کیا گیا، رات گئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور دیگر ججز سپریم کورٹ پہنچے، کیونکہ امکان تھا کہ اگر رات بارہ بجے تک تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری نہ کروائی گئی تو سپریم کورٹ کی جانب سے حکومت اور اسپیکر کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے۔
دن بھر ہلچل کے بعد اسپیکر اسد قیصر نے عمران خان کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھانے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، ساتھ ہی ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری بھی مستعفی ہوگئے۔
اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کے مستعفی ہونے کے بعد سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے پینل چیئر پرسن کی حیثیت سے اجلاس کی صدارت سنبھالی اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ شروع کروا دی۔
چونکہ رات کے بارہ بج چکے تھے اس لیے تاریخ تبدیل ہوجانے کے باعث اجلاس کا نیا دن شروع ہوا اور ووٹنگ سے قبل ایک مرتبہ پھر تلاوت، نعت اور قومی ترانے کے بعد اجلاس کی کارروائی کا آغاز کیا گیا۔
10 اپریل کی نصف شب کو تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کا اعلان کردیا گیا جس کے بعد عمران خان وزیر اعظم نہیں رہے، 342 نشتوں کے ایوان میں تحریک عدم اعتماد 174 ووٹوں سے کامیاب ہوئی۔
یہ پاکستان کی تاریخ کی پہلی کامیاب تحریک عدم اعتماد تھی اور عمران خان وہ پہلے وزیر اعظم بنے جنہیں کامیاب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عہدے سے فارغ کیا گیا۔
تحریک کی کامیابی کے بعد نامزد امیدوار برائے وزیر اعظم شہباز شریف نے اسمبلی میں خطاب بھی کیا۔
اتوار کی سہ پہر 3 بجے سے ملک بھر میں عمران خان کے حامیوں نے سڑکوں پر نکلنا شروع کردیا اور رات تک احتجاج کا سلسلہ ملک بھر میں پھیل گیا، لاکھوں افراد سڑکوں پر عمران خان کے حق میں اور نئی حکومت اور فوج کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔
شہباز شریف ملک کے 23 ویں وزیر اعظم منتخب
11 اپریل سوموار کو ایوان کے اجلاس کا ایجنڈا ملک کے 23 ویں وزیر اعظم کا انتخاب تھا، اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف نے وزیر اعظم کے لیے ہونے والی ووٹنگ کا بائیکاٹ کیا اور واک آؤٹ کر گئے جس کے بعد لیڈر آف اپوزیشن، پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور 3 بار صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہنے والے شہباز شریف بلا مقابلہ ملک کے 23 ویں وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔
اسی رات شہباز شریف نے ایوان صدر میں اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا اور وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوگئے اس کے ساتھ ہی ہفتوں سے جاری سیاسی بے یقینی اور پارلیمانی رسہ کشی اپنے اختتام کو پہنچی۔
پاکستان تحریک انصاف اس سارے عمل کو بین الاقوامی سازش قرار دیتی رہی لہٰذا تحریک انصاف نے نئی حکومت کو بیرونی ایما پر برسر اقتدار آنے والی امپورٹد حکومت قرار دیا۔
کراچی سے بچی کی گمشدگی کا معمہ
16 اپریل کو کراچی کے علاقے الفلاح ٹاؤن سے ایک بچی دعا زہرا کے لاپتہ ہونے کے معاملہ سامنے آیا جس میں بعد ازاں کئی موڑ آئے۔ معاملے کو مسلکی رنگ دینے سے لے کر بچی پر والدین کی جانب سے تشدد کا الزام اور پھر انسانی اسمگلنگ کی قیاس آرائیوں تک طرح طرح کے تنازعات نے اس کیس کو الجھا دیا۔
بعد ازاں بچی نے منظر عام پر آ کر اپنی مرضی سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نوجوان سے شادی کا اعلان کیا جس کے بعد کم عمری کی شادی اور اس سے جڑی قانونی پیچیدگیوں پر بحث شروع ہوگئی۔
بچی کے والد بچی کی کسٹڈی حاصل کرنے کے لیے لگاتار عدالتوں کے چکر کاٹتے رہے اور میڈیا اور سوشل میڈیا کی رنگین بیان بازیوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے۔
بچی فی الحال ایک سرکاری شیلٹر ہوم میں قیام پذیر ہے۔
پریانتھا کمارا قتل کیس کے ملزمان کو سزائیں
18 اپریل کو صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں توہین مذہب کا الزام لگنے کے بعد ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کے قاتلوں کو سزائے موت سنا دی گئی۔
لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 6 افراد کو سزائے موت، 9 کو عمر قید اور 72 افراد کو 2، 2 سال قید کی سزائیں سنائیں۔
کیس میں 89 ملزمان کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا تھا جن میں سے 88 کو سزائیں سنائی گئیں، ایک شخص کو 5 سال قید جبکہ ایک ملزم کو بری کر دیا گیا۔
یہ اندوہناک سانحہ گزشتہ برس 3 دسمبر کو سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں پیش آیا جب فیکٹری ملازمین نے توہین مذہب کا الزام لگا کر اپنے سری لنکن مینیجر پر حملہ کیا اور درجنوں افراد نے بدترین تشدد کر کے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا، لاش کو بعد ازاں سڑک پر رکھ کر آگ لگا دی گئی تھی۔
جامعہ کراچی میں چینی اساتذہ پر خودکش حملہ
26 اپریل کو جامعہ کراچی کے اندر چینی زبان کے مرکز کے قریب خودکش حملے میں 3 چینی اساتذہ سمیت 4 افراد جاں بحق ہوئے۔
خودکش حملہ آور ایک بلوچ خاتون تھیں جن کا نام شاری بلوچ بتایا گیا، خاتون خود بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں اور ایک تعلیم یافتہ خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں، وہ عرصے سے بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ کا حصہ تھیں۔
مئی
چلغوزے کے جنگلات میں خوفناک آگ ۔ اربوں کا نقصان
18 مئی 2022 کو صوبہ بلوچستان کے ضلع شیرانی میں چلغوزے کے جنگلات میں لگنے والی آگ سے لاکھوں درخت جل کر تباہ ہوگئے جس سے اربوں روپے، اور مقامی جنگلی حیات کو شدید نقصان پہنچا۔
آگ بجھانے کی کوششوں میں 3 افراد جاں بحق بھی ہوئے۔
مقامی انتظامیہ کے مطابق سلیمان رینج میں چلغوزے کا یہ جنگل دنیا کا ایک اہم جنگل ہے اور یہ مجموعی طور 26 ہزار ایکڑ پر محیط ہے۔
چلغوزے کی کاشت اور فروخت پاکستان کے لیے ایک منافع بخش کاروبار ہے، صرف مذکورہ جنگل سے ہر سال 650 سے لے کر 675 میٹرک ٹن چلغوزہ پیدا ہوتا ہے جبکہ مجموعی طور پر چلغوزے کی 2.6 ارب روپے کی تجارت ہوتی ہے۔
جون
قلعہ سیف اللہ میں بس حادثہ
8 جون کے روز بلوچستان کے علاقے ژوب میں قومی شاہراہ پر قلعہ سیف اللہ کے قریب مسافر بس سینکڑوں فٹ گہری کھائی میں گر گئی جس کے نتیجے میں 22 افراد جاں بحق ہوگئے۔
ریسکیو اہلکاروں کے مطابق پہاڑ سے نیچے اترنے کا کوئی باقاعدہ راستہ نہیں تھا، اہلکاروں نے کئی گھنٹے جدوجہد کر کے لاشوں اور زخمیوں کو ایک ایک کر کے اوپر پہنچایا۔
ملک کو سنگین معاشی بحران لاحق ہوگیا ۔ مہنگائی کا طوفان
یہ سال معاشی حوالوں سے بھی پاکستان کے لیے بدترین رہا، ایک طرف سیاسی بے یقینی نے روپے کی قدر اور بیرونی سرمایہ کاری پر برا اثر ڈالا تو دوسری طرف نئی حکومت نے، جو آئی ہی معاشی بدحالی کو جواز بنا کر تھی، اس بدحالی میں اضافہ کیا۔
سیاسی و عسکری اکھاڑ پچھاڑ کے علاوہ نئی حکومت بھی معیشت کو سنبھالنے میں ناکام رہی اور پاکستان بدترین معاشی گراوٹ کا شکار ہوگیا۔
گزشتہ سال کے دوران پاکستانی روپے کی قدر میں تاریخی کمی دیکھی گئی۔ ایک سال کے دوران امریکی ڈالر کی قیمت میں 48 روپے 38 پیسے اضافہ ہوا۔ یکم جنوری 2022 کو ڈالر کی قیمت 176 روپے 74 پیسے تھی جو یکم دسمبر تک 223 روپے 68 پیسے ریکارڈ کی گئی۔
نئی حکومت نے پیٹرول کی قیمت بھی یکلخت کئی گنا بڑھا دی جس کے بعد ملک بھر میں مہنگائی کا طوفان آگیا۔ جنوری 2022 میں پیٹرول کی قیمت 144 روپے 62 پیسے فی لیٹر تھی جو جون 2022 تک 250 روپے تک بڑھا دی گئی، دسمبر تک پیٹرول کی قیمت کم کر کے 214 روپے 80 پیسے فی لیٹر کردی گئی۔
کچھ ایسا ہی حال پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا رہا، رواں برس اسٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ رہا تاہم 100 انڈیکس میں مجموعی طور پر 9.85 فیصد کمی ہوئی۔
24 جون 2022 کو وزیر اعظم شہباز شریف نے بڑی صنعتوں پر سپر ٹیکس لگانے کا اعلان کیا تو اس روز اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی، سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوب گئے اور مارکیٹ میں ٹریڈنگ معطل کردی گئی۔
مجموعی طور پر ایک سال کے دوران انڈیکس میں 4 ہزار سے زائد پوائنٹس کم ہوئے۔
بیرون ملک سے ملنے والے تحائف اور توشہ خانہ ریفرنس
رواں برس پاکستانی حکمرانوں کو بیرون ملک سے ملنے والے تحائف اور توشہ خانہ بھی ہر خاص و عام کا موضوع بحث بنے رہے۔
اپریل میں صحافی رانا ابرار نے پاکستان انفارمیشن کمیشن کو ایک درخواست دی کہ وہ پاکستانی حکام کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات جاننا چاہتے ہیں، جسے منظور کرتے ہوئے انفارمیشن کمیشن نے کابینہ ڈویژن کو تحائف کی معلومات فراہم کرنے کی ہدایات دیں۔
تاہم کابینہ ڈویژن نے یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا اور مؤقف اپنایا کہ ان تحائف کی تفصیل بتانا غیر قانونی ہے، اس لیے اسلام آباد ہائی کورٹ انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دے۔
اس کے بعد مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی محسن نواز رانجھا نے اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت تحائف سے متعلق ریفرنس دائر کردیا، یہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجا گیا جس کا فیصلہ عمران خان کی نااہلی کی صورت میں سامنے آیا۔
اس سے قبل 2 سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری بھی توشہ خانہ سے متعلق کیسز کا سامنا کرچکے ہیں۔
بیرون ملک سے ملنے والے تحائف کی بازگشت شروع ہوئی تو یہ بھی انکشاف ہوا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے غیر ملکی سربراہوں اور شاہی خاندانوں سے ملنے والے کئی تحائف فروخت بھی کیے۔
جولائی
پنجاب میں آئینی بحران ۔ وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے میوزیکل چیئر چلتی رہی
ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب شدید آئینی و انتظامی بحران کا شکار رہا۔
اس کا آغاز 28 مارچ 2022 سے ہوا جب اس وقت کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے وزیر اعظم عمران خان کی درخواست پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا اور ان کی جگہ اسپیکر پنجاب اسمبلی، سابق وزیر اعلیٰ اور مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کو نامزد کیا گیا۔
اس دوران پاکستان تحریک انصاف میں دھڑے بندی شروع ہوگئی اور ایک گروپ نے سینیئر رکن علیم خان کو وزیر اعلیٰ نامزد کرنے کا مطالبہ کیا۔ ناکامی پر علیم خان اور ان کے گروپ نے پرویز الٰہی کی نامزدگی کی شدید مخالفت کی اور اس کے بجائے وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہباز شریف کی حمایت کا فیصلہ کیا۔
اپریل کے آغاز میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے بلایا جانے والا اجلاس کئی بار ملتوی ہوتا رہا اور اس دوران اسمبلی میں ہنگامہ آرائی بھی ہوئی۔
6 اپریل کو مسلم لیگ ن نے اسپیکر پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی، تحریک انصاف رہنماؤں نے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے منحرف ہوجانے پر ان کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی۔
16 اپریل کو اپوزیشن کے امیدوار حمزہ شہباز 197 ووٹوں کے ساتھ نئے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے، جن میں سے 25 تحریک انصاف ارکان نے پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ دیا۔ اسمبلی میں شدید ہنگامہ آرائی ہوئی جس میں ڈپٹی اسپیکر مزاری کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
20 مئی کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کے 25 منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کردیا، خالی نشستوں پر ضمنی انتخاب ہوا۔
17 جولائی کو ایک بار پھر صوبائی اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے ووٹنگ ہوئی جس میں حمزہ شہباز نے 179 اور چوہدری پرویز الٰہی نے 186 ووٹ لیے، اس دفعہ مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت کے خفیہ خط نے ایک اور تنازعہ کھڑا کیا۔ ڈپٹی اسپیکر نے یک جنبش قلم پاکستان مسلم لیگ ق کے 10 ووٹ مسترد کردیے اور حمزہ شہباز 3 ووٹوں سے فاتح قرار پائے۔
26 جولائی کو سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف فیصلہ دیا اور چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ قرار دیا، اگلے دن انہوں نے صدر عارف علوی سے اپنے عہدے کا حلف لے لیا۔
صادق آباد کشتی حادثہ ۔ ایک ہی خاندان کے درجنوں افراد ڈوب گئے
18 جولائی کو دریائے سندھ میں صوبہ پنجاب کی تحصیل صادق آباد کے قریب باراتیوں کی کشتی دریا میں الٹ گئی، کشتی میں گنجائش سے کہیں زیادہ 90 کے قریب افراد سوار تھے جن میں عورتوں اور بچوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔
شادی کے لیے جانے والے خاندان نے 28 جنازے اٹھائے جن میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی، ڈوبنے والے مرد تیراکی جاننے کے باعث اپنی جانیں بچانے میں کامیاب رہے لہٰذا ہلاک شدگان میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی۔
مقامی افراد کے مطابق ایک ایک گھر سے کئی خواتین کے جنازے اٹھے اور ان کے گھر عورتوں سے خالی ہوگئے۔
اگست
سیلاب ۔ تباہی کی المناک داستانیں چھوڑ گیا
ہر سال کی طرح اس سال بھی موسم گرما کی شدت میں اضافہ ہوا اور گرمی سے پریشان لوگوں نے ابر رحمت کی دعائیں مانگیں، لیکن اس دفعہ ابر کرم ایسے برسا کہ رحمت کے بجائے آفت بن گیا، شہر کے شہر آسمان سے برستی بارش میں ڈوبتے چلے گئے اور ملک کا ایک تہائی حصہ سیلاب کی نذر ہوگیا۔
رواں برس جولائی میں ملک بھر میں مون سون کی بارشوں کے آخری اسپیل نے طوفانی صورت اختیار کرلی اور سیلاب بن کر ایک کے بعد ایک شہر کو روندتا، پچھاڑتا آگے بڑھتا چلا گیا۔
محکمہ موسمیات کے مطابق صرف جولائی میں ہونے والی بارشیں ہر سال ہونے والی مون سون کی اوسط بارشوں سے 26 فیصد زیادہ تھیں۔
پہلے بارانی اور پھر دریائی سیلاب نے سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخواہ کو بری طرح متاثر کیا اور سوا 3 کروڑ افراد سیلاب میں اپنا مال و متاع گنوا بیٹھے۔
سیلاب سے لاکھوں افراد بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے آپہنچے، 17 سو سے زائد اموات کے ساتھ ملک کو 3 کھرب روپے کا نقصان پہنچا جس سے معیشت ہل کر رہ گئی۔
گھر، اسکول، اسپتال، پل، سڑکیں تباہ ہوگئے اور پاکستان کئی دہائی پیچھے چلا گیا۔
پاکستان میں آنے والے خوفناک سیلاب نے کلائمٹ چینج کے ان ہولناک خطرات کی طرف توجہ دلائی جس سے دنیا نگاہیں چرا رہی تھی، دنیا بھر میں ایک بحث چھڑ گئی کہ امیر اور ترقی یافتہ ممالک کی صنعتی ترقی موسموں کے توازن بگاڑ رہی ہے جس کا خمیازہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک بھگت رہے ہیں، وہ بھی اس صورت میں جب کاربن اخراج میں ان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
دنیا بھر میں آواز اٹھائی جانے لگی کہ ترقی یافتہ ممالک اپنی وجہ سے ہونے والے اس نقصان کا ازالہ کریں، جس کے بعد ماحولیات کی سالانہ کانفرنس کوپ 27 میں ایک فنڈ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔
ستمبر
سارا انعام قتل کیس
23 ستمبر کو قتل کی اس ہولناک واردات نے پورے ملک کر ہلا دیا جب معروف صحافی ایاز امیر کے بیٹے شاہنواز امیر نے اپنی اہلیہ سارا انعام کو بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا۔
37 سالہ سارا 3 ماہ قبل ہی شاہنواز سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئی تھیں، واقعے سے چند روز قبل دونوں کا مالی معاملات پر جھگڑا ہوا جس کے بعد سارا ابو ظہبی سے، جہاں وہ ملازمت کرتی تھیں، شاہنواز سے ملنے اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں واقع فارم ہاؤس پہنچیں۔
وقوعے کے روز دونوں کے درمیان شدید لڑائی ہوئی جس کے دوران شاہنواز نے غصے سے بے قابو ہو کر ورزش کا ڈمبل بیوی کے سر پر دے مارا اور سارہ کا بے حس و حرکت جسم باتھ ٹب میں ڈال دیا۔
پولیس نے ملزم کے والدین کا نام بھی شامل تفتیش کرلیا اور صحافی ایاز امیر کو حراست میں لے لیا تاہم بعد ازاں والدین کا نام کیس سے خارج کردیا گیا۔
سارا انعام قتل کیس تاحال عدالت میں زیر سماعت ہے اور ملزم پولیس کی تحویل میں ہے۔
بہیمانہ قتل کے واقعے پر قومی و بین الاقوامی تنظیموں نے پاکستان میں ایک بار پھر خواتین کے خلاف تشدد اور عدم مساوات پر تشویش کا اظہار کیا۔ جولائی میں ورلڈ اکنامک فورم کے گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس میں پاکستان صنفی مساوات کے حوالے سے دوسرا بدترین ملک قرار پایا۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر بری
29 ستمبر کو ایون فیلڈ ریفرنس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف اور ان کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر اعوان کو بری کر دیا۔
مریم نواز اور کیپٹن صفدر نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نیب کی احتساب عدالت کی جانب سے سزاؤں کے خلاف اپیل دائر کر رکھی تھی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے دونوں کو بری کردیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریری فیصلے میں کہا کہ اپیلوں کی منظوری اور بریت کی وجوہات بعد میں جاری ہوں گی۔
یہ ریفرنس اس وقت دائر کیا گیا تھا جب سنہ 2016 میں پاناما پیپرز میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اور شریف خاندان کی بیرون ملک جائیدادوں کی تفصیلات منظر عام پر آئیں۔
سنہ 2017 میں سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے فیصلے میں وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا تھا۔
لندن کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے معاملے پر دائر ریفرنس میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 2018 میں نواز شریف کو 11 سال قید اور 80 لاکھ برطانوی پاؤنڈ جرمانہ، مریم نواز کو 7 سال قید اور 20 لاکھ برطانوی پاؤنڈ جرمانہ اور کیپٹن صفدر کو 1 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
اکتوبر
سوات میں طالبان کی مبینہ واپسی اور دہشت گردی کی حالیہ لہر
رواں برس کے وسط سے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع سوات میں طالبان کی مبینہ موجودگی کی اطلاعات سامنے آنے لگیں، اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد ضلعے میں دہشت گردانہ کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اگست میں مبینہ طور پر تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں نے دو فوجی جوانوں اور ایک پولیس افسر کو یرغمال بنا لیا جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہیں۔
اس کے چند روز بعد مٹہ کے ایک نواحی گاؤں میں سابقہ امن لشکر کے سربراہ محمد ادریس خان کی گاڑی کو دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنا کر 2 پولیس اہلکاروں سمیت 8 افراد کو جاں بحق کر دیا گیا۔
دوسرے ہی روز چار باغ قصبے سے ملحقہ علاقے میں سابقہ امن کمیٹی کے ایک رکن حاجی محمد شیریں کو گولیاں مارکر ہلاک کر دیا گیا۔
کچھ روز بعد چپریال سے بین الاقوامی موبائل کمپنی کے 8 ملازمین کو دن دہاڑے اغوا کیا گیا جس میں سے مزدوروں کو رہا کرکے مغوی انجینئرز کی رہائی کے لیے شدت پسندوں نے بھاری تاوان کا مطالبہ کیا۔
ان واقعات کی وجہ سے مقامی افراد میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی اور لوگوں نے حکومت کی چشم پوشی پر اسے تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔
10 اکتوبر کو ایک اسکول وین پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی جس سے ڈرائیور موقع پر جاں بحق ہوگیا جبکہ 2 طلبہ زخمی ہوئے، تیسری جماعت کے ایک طالب علم کو 3 گولیاں لگیں۔
واقعے کے خلاف لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور نشاط چوک پر بڑا احتجاجی مظاہرہ ہوا، مظاہرین نے ہلاک ہونے والے ڈرائیور کی میت دفنانے سے انکار کرتے ہوئے اسے پوری رات کھلے آسمان تلے سڑک پر رکھا۔
احتجاج میں مظاہرین نے سفید جھنڈے ہاتھ میں لیے سوات میں امن زندہ باد اور دہشت گردی مردہ باد کے نعرے لگائے۔
سوات ایک عرصے تک طالبان کے کنٹرول میں رہا اور اس دوران خواتین سمیت لوگوں کو کوڑے مارنے اور ذبح کرنے کے واقعات آئے دن سامنے آتے رہتے تھے جبکہ لڑکیوں کی تعلیم پر بھی پابندی عائد تھی۔ سوات کے لوگوں نے اب دہشت گردی اور جبر کے آگے جھکنے سے انکار کردیا۔
ضمنی انتخاب میں عمران خان 7 نشستوں پر خود امیدوار ۔ 6 پر فتح یاب ہوئے
17 اکتوبر کو قومی اسمبلی کی 8 اور صوبائی اسمبلی کی 3 نشستوں کے لیے ضمنی انتخاب کا انعقاد ہوا، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان قومی اسمبلی کی 8 میں سے 7 نشستوں پر خود امیدوار کھڑے ہوئے۔
اس انتخاب میں عمران خان اپنی 7 میں سے 6 نشستوں پر فتح یاب ہوگئے۔ اس سے ایک طرف تو پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، تاہم دوسری طرف بعض حلقوں کی جانب سے یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ کیا تحریک انصاف کی فتح کے لیے صرف عمران خان کا ہونا ضروری ہے؟ اور کیا پارٹی میں ایسی قیادت موجود نہیں جو الیکشن جیت سکے، اور جس پر عوام اور خود عمران خان بھی اعتماد کر سکیں؟
عمران خان 5 سال کے لیے نااہل قرار
21 اکتوبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو، توشہ خانہ ریفرنس کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے 5 سال کے لیے ہر قسم کے عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دیا۔
عمران خان کے وکیل گوہر خان کے مطابق الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کو کسی بھی عوامی عہدے پر انتخاب یا تعیناتی کے لیے 5 سال کے لیے نا اہل قرار دیا ہے، فیصلے کے بعد وہ وہ رکن قومی اسمبلی بھی نہیں رہے۔
عمران خان نے اپنی نااہلی کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔
ارشد شریف کا قتل ۔ ایک گتھی جو الجھتی جارہی ہے
23 اکتوبر 2022 کی علیٰ الصبح پاکستانی صحافی برادری اس وقت شدید صدمے اور بے یقینی کی کیفیت سے دو چار ہوگئی جب اے آر وائی نیوز سے وابستہ سینیئر صحافی ارشد شریف کی موت کی اطلاع پھیلی۔
ابتدائی قیاس آرائیوں کے بعد لرزہ خیز تفصیلات کا انکشاف ہوتا گیا، ارشد شریف کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے قریبی علاقے مگاڈی میں نیروبی پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے۔
نیروبی پولیس نے اسے شناخت کی غلطی قرار دیا اور کہا کہ انہیں ایک گاڑی چوری اور اغوا کی اطلاع موصول ہوئی تھی، وہ ارشد شریف کی گاڑی کو ملزمان کی گاڑی سمجھے۔
بعد ازاں پولیس نے اپنا بیان بدل کر کہا کہ گاڑی سے ان پر فائرنگ کی گئی اور جوابی فائرنگ میں پاکستانی صحافی جاں بحق ہوئے۔
ارشد شریف کی ڈیڈ باڈی کی کچھ تصاویر بھی سامنے آئیں جن میں ان کے جسم پر تشدد کے نشانات پائے گئے۔ اس کیس پر شہبات کے گہرے سائے ہیں اور اس کی گتھیاں سلجھانے کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔
اہل خانہ کے مطابق ارشد شریف کو کچھ عرصے سے دھمکیاں موصول ہورہی تھیں جن کے بعد وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
سانحہ مچھر کالونی ۔ ’غلط فہمی‘ میں 2 افراد ہجوم کے ہاتھوں قتل
28 اکتوبر کے روز کراچی کے علاقے مچھر کالونی میں نجی ٹیلی کام کمپنی کے ایک انجینیئر اور ڈرائیور کو بچے اغوا کرنے کے الزام میں پتھر مار کر اور تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔
اہل علاقہ کے مطابق دونوں افراد صبح سے علاقے میں کئی جگہ دیکھے گئے، وہ کمپنی کی جانب سے مرمتی کام کے لیے آئے تھے تاہم کسی طرح افواہ پھیل گئی کہ وہ بچے اغوا کرنے والے جرائم پیشہ ہیں۔
بعد ازاں اہل علاقہ نے دونوں کو پکڑ کر ان پر تشدد شروع کردیا، عینی شاہدین کے مطابق لوگوں نے ٹیلی کام ملازمین پر اینٹوں اور پتھروں سے تشدد کیا۔ کچھ افراد نے مقتولین کو بچانے کی کوشش کی تو لوگوں نے انہیں بھی تشدد کر کے زخمی کردیا۔
پولیس نے بعد ازاں درجنوں افراد کو حراست میں لے کر تفتیش شروع کردی۔ اہل علاقہ نے مقتولین کے لیے دعائے مغفرت کا اہتمام کیا اور اس دوران کچھ بچیوں نے پوسٹرز اٹھائے رکھے جس پر تحریر تھا، ’ہم اپنے شہید بھائیوں سے شرمسار ہیں، منجانب مچھر کالونی‘۔
آڈیو لیکس ۔ ایک ایک کر کے سب کی ٹیلی فون ریکارڈنگز ریلیز ہوتی گئیں
رواں برس آڈیوز لیک ہونے کا بھی سال رہا جب وقتاً فوقتاً مختلف سیاست دانوں کی فون کالز منظر عام پر آتی رہیں۔
جنوری میں پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف کی پرویز رشید کے ساتھ گفتگو منظر عام پر آئی جس کا موضوع مختلف میڈیا چینلز کو اشتہارات دینا تھا۔
فروری میں اس وقت کی خاتون اول بشریٰ بی بی کی تحریک انصاف کے فوکل پرسن ڈاکٹر ارسلان سے غداری سے متعلق گفتگو میڈیا اور سوشل میڈیا کا بحث بنی رہی، ستمبر میں مریم نواز اور وزیر اعظم شہباز شریف کی پیٹرول کی قیمت بڑھانے اور صحت کارڈ بند کرنے سے متعلق ٹیلی فونک گفتگو ریلیز ہوئی۔
اکتوبر میں عمران خان کی سائفر سے متعلق آڈیو نے ایک طوفان کھڑا کردیا، وزیر اعظم شہباز شریف نے لیک ہونے والی متعدد ریکارڈنگز کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کی تحقیقات کا حکم بھی دیا۔
علاوہ ازیں بشریٰ بی بی کی تحائف اور ان کی فروخت سے حوالے سے بھی مختلف ٹیلی فون ریکارڈنگز منظر عام پر آئیں۔
مختلف سیاست دانوں کی غیر اخلاقی آڈیوز اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر ریلیز کیے جانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
نومبر
پاکستان تحریک انصاف کا حقیقی آزادی لانگ مارچ
تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد 25 مئی کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کیا اور 6 دن میں لانگ مارچ کی کال دینے اعلان کیا۔
ان کا یہ مارچ 6 دن کے بجائے کئی ماہ کے بعد شروع ہوا اور 18 اکتوبر کو انہوں نے اچانک لانگ مارچ کا آغاز کردیا۔ اسے حقیقی آزادی مارچ کا نام دیا گیا۔
3 نومبر کو عمران خان پر حملے کے بعد اور ان کی علالت کے دوران دیگر رہنما مارچ کی قیادت کرتے رہے تاہم اس میں پہلے سا جوش و جذبہ نہیں رہا۔
26 نومبر کو عمران خان نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے لانگ مارچ ختم کردیا۔
سابق وزیر اعظم عمران خان پر قاتلانہ حملہ
3 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کے حقیقی آزادی لانگ مارچ میں صوبہ پنجاب کے شہر وزیر آباد میں فائرنگ ہوئی جس سے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت متعدد پارٹی رہنما زخمی ہوئے۔
عمران خان کی ٹانگ میں گولی لگی اور انہیں پہلے لاہور اور پھر شوکت خانم اسپتال منتقل کیا گیا۔
عمران خان پر حملے کے بعد ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا، اس موقع پر وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی رہائشگاہ کے باہر بھی احتجاج ہوا۔
فائرنگ سے مارچ میں شریک معظم گوندل نامی شخص جاں بحق ہوا جو اپنے بچوں کے ساتھ مارچ میں آیا تھا، بچوں کی مردہ باپ کو اٹھانے اور رونے کی دلدوز ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھیں۔
عمران خان نے معظم گوندل کے اہلخانہ کی کفالت کا اعلان بھی کیا۔
نئے آرمی چیف نے فوج کی کمان سنبھال لی
29 نومبر کو راولپنڈی میں پاکستانی فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹرز میں کمان کی تبدیلی کی پروقار تقریب منعقد ہوئی جس میں نئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے فوج کی کمان سنبھال لی۔
سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے عہدے میں 3 سال کی توسیع کے بعد ریٹائرڈ ہوئے اور نئے آرمی چیف کا تقرر عمل میں آیا۔
اس دوران آرمی چیف کے لیے نام کے معاملے پر سیاسی پارٹیوں کے درمیان رسہ کشی، ملاقاتیں و مذاکرت اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایک بار پھر ممکنہ توسیع کی قیاس آرائیوں نے میڈیا کو ہیجان میں مبتلا کیے رکھا جس کا اختتام نئے آرمی چیف کے اعلان پر ہوا۔
دسمبر
بنوں میں دہشت گردوں نے سی ٹی ڈی اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا
18 دسمبر اتوار کے روز صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع بنوں میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے دفتر میں دہشت گردوں نے ایک اہلکار سے اسلحہ چھین کر وہاں موجود تمام اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا۔
یہ دہشت گرد وہاں زیر تفتیش تھے اور اہلکاروں کو یرغمال بنانے کے بعد انہوں نے افغانستان جانے کے لیے محفوظ راستہ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تاہم ان کا یہ مطالبہ رد کردیا گیا۔
48 گھنٹوں تک دہشت گردوں کو ہتھیار ڈالنے کی ترغیب کے بعد آپریشن کیا گیا جس میں تمام 35 دہشت گرد ہلاک ہوگئے، اس دوران 2 فوجی جوان شہید اور ایک افسر سمیت 15 جوان زخمی بھی ہوئے۔
اس دوران منگل کے روز ضلعے میں تمام تعلیمی ادارے بند رہے جبکہ شہر کے داخلی اور خارجی راستے سیل کردیے گئے، تمام اسپتالوں میں طبی ایمرجنسی نافذ رہی۔
مقامی افراد کے مطابق بعض علاقوں میں بجلی اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل رہی۔
اسلام آباد میں پولیس تلاشی کے دوران خودکش دھماکا
23 دسمبر جمعہ کے روز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک پولیس چیک پوائنٹ پر پولیس نے مشکوک گاڑی کو روکا تو اندر موجود شخص نے دھماکا کردیا، دھماکے میں حملہ آور ہلاک ہوگیا۔
خودکش دھماکے میں تلاشی لینے والا پولیس اہلکار جاں بحق ہوگیا جبکہ 4 اہلکار اور 2 شہری بھی زخمی ہوئے۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے مطابق گاڑی اسلام آباد میں ایک ہائی ویلیو ٹارگٹ کو نشانہ بنانے کے لیے جارہی تھی۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے جاں بحق اہلکار کو شہدا پیکج دینے اور غیر معمولی بہادری پر پولیس اہلکاروں کو انعام اور تعریفی اسناد دینے کی ہدایت کی۔ حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی۔