کراچی ( ویب ڈیسک) – سراج الدین بہادر شاہ ظفر خاندان تیموریہ کے آخری بادشاہ جو اکبر شاہ ثانی کے بیٹے تھے۔ 1837ء میں تریسٹھ سال کی عمر میں تخت پر بیٹھے اور بیس سال حکومت کرنے کے بعد 1857ء کی جنگ آزادی کے نتیجے میں گرفتار ہوئے اور برما کی راجدھانی رنگون میں قید کر دیے گئے۔ پانچ سال تک اسیری اورنظر بندی کے مصائب جھیل کر نہایت بے کسی کے عالم میں 7نومبر1862ءمیں وفات پائی۔ ان کا مزار رنگوں میں ہے اور اس کی خستہ حالی آج بھی ان کے دردناک انجام کی داستان سنا رہی ہے۔
سن1857 کی پہلی جنگ آزادی کے وقت بہادر شاہ ظفر 82سال کے تھے جب جنرل ہڈسن نے ان کے سبھی بچوں کا سرقلم کرکے ان کے سامنے تھال میں سجا کرپیش کیا تھا۔ بہادر شاہ ظفر نے اپنے بیٹوں کے کٹے ہوئے سروں کو اپنے ہاتھوں میں لے کردرد بھرے الفاظ میں ان کے لئے دعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ تیمور کی اولاد ایسے ہی سرخرو ہوکر باپ کے سامنے اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد شہزادوں کے دھڑ کوتوالی کے سامنے اور کٹے ہوئے سروں کو خونی دروازے پرلٹکا دیا گیا۔
سن1857 ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد پورے ملک کی سیاست و ادب کا نقشہ بدل گیا تھا۔ دلی کی قسمت اب کیا جاگتی، بلکہ اسکی تباہی و بربادی کا سلسلہ تو ظفر سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا۔ شاہ ظہور الدین حاتم کا مخمس شہر آشوب، مرزا رفیع سودا کا قصیدہ تضحیکِ روزگار اور میرتقی میر کی مثنوی دربیان وکذب وغیرہ دہلی کی معاشرتی و معاشی انحطاط و زوال کی اپنی داستان ہے جو ملک کی تاریخ کے لیے ایک آئینہ حقیقت عبرت ہے۔ حقیقت اس لیے کہ تاریخ اس کی تردید نہیں کر سکتی اور عبرت اس لیے کہ اورنگ زیب عالمگیر کے جانشینوں کی عشرت پسندی،عاقبت اندیشی اور امور سلطنت کی طرف سے بے نیازی اس کی نشاندہی کرتی ہے۔
سیاسی و ذہنی انتشار کا اثرعام زندگی ، خارجی حالات اور شعرائے کرام پر بھی پڑا، جس کی عکاسی و تصویر کشی ان کے کلام میں نمایاں ہیں۔ غلام ہمدانی مصحفی جیسا شاعر بھی ملک کے بدلتے ہوئے حالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا اور ملک گیری کی ہوس کا جو منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اس کا اظہار اس شعر میں یوں کیا ہے۔
ہندوستاں کی دولت و حشمت جو کچھ کہ تھی
کافر فرنگیوں نے بہ تدبیر کھینچ لی