زندگی آگے بڑھنے اوربڑھتے رہنے کا نام ہے تاریخ میں ہمیں کئی نام ایسے ملتے ہیں جو سونے کا چمچہ منہ لے کر یا کسی پہلے سے شہرت یافتہ خاندان میں پیدا نہیں ہوئے لیکن انہوں نے اپنی دنیا آپ بنائی اورآج ساری دنیا انہیں قدرکی نگاہ سے دیکھتی ہے، یہاں ہم کچھ ایسے ہی پاکستانیوں کا ذکر کریں گے جنہوں نے زندگی کی تمام ترمشکلات کا سامنا کرکے اپنے لئے ایسے راستے بنائے کہ دنیا ان کے نقش قدم پرچلنا چاہتی ہے۔
عبد الستارایدھی
عبدالستارایدھی کراچی کی ہول سیل مارکیٹ میں ’پھیری والے‘تھے اور معمولی پیمانے پرکپڑا بیچا کرتے تھے لیکن آج وہ دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس اور رفاعی ادارے چلارہے ہیں۔ پاکستان کے اس عظیم سماجی رہنماء کو خدمتِ خلق کا جذبہ ان کی بیمار والدہ سے ملا جن کی وفات مفلوجی کی حالت میں ہوئی۔
مہدی حسن
مہدی حسن نے اپنی جوانی کے آغاز میں چیچہ وطنی اور بہاولپور میں موٹر مکینک کے طور پرکام کیا کہ اپنا اوراپنے خاندان کا پیٹ بھرسکیں لیکن انہوں نے اپنے خواب کو ترک نہیں کیا اورآج دنیا انہیں’شہنشائے غزل‘کے نام سے یاد کرتی ہے اور پاکستانی موسیقی کی تاریخ ان کے نام کے بغیرنا مکمل تصورکی جاتی ہے۔
محمد یوسف
اپنے دور میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کا سرمایہ اور ٹیسٹ کرکٹ کے مایہ نازکھلاڑی محمد یوسف نے اپنی زندگی کا ابتدائی دور انتہائی دشوار حالات میں گزارا۔ انہوں نے رکشہ چلایا اور کرکٹ شروع کرنے سے قبل ایک درزی کی دوکان میں ملازمت بھی کی۔
ملک ریاض
پاکستان کے دس متمول ترین افراد میں ایک نام ملک ریاض کا بھی ہے لیکن یہ دولت انہیں ورثے میں نہیں ملی۔ ملک ریاض نے اپنی زندگی کی شروعات ایک کلرک کی حیثیت سے کی تھی۔ آج نا صرف یہ کہ وہ ایک جانی پہچانی کاروباری شخصیت ہیں بلکہ ان کی شہرت کا سبب ان کی سماجی خدمات اورفلاحی کام ہیں جن سے پاکستان کے نادار افراد کی کثیر تعداد فوائد کشید کرتی ہے۔
ملالہ یوسف زئی
چھوٹی سی عمرمیں بڑے خواب آنکھوں میں سجانے والی ملالہ یوسف زئی سے کون واقف نہیں۔ سوات میں حالتِ جنگ کے دور میں اپنی تعلیم کے حصول کے لئے آواز اٹھا کرانہوں نے پاکستان کا ایک ایسا روشن چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جس کی آج کے دور میں اشد ضرورت ہے۔ طالبان نے انہیں اس جرم کی پاداش میں قتل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ گئیں اورآج وہ دنیا کی سب سے کم عمر نوبیل ایوارڈ یافتہ پاکستانی ہیں اوریہ ایوارڈ انہیں امن اورتعلیم کے فروغ کے لئے ان کی خدمات کے صلے میں ملاہے۔