فن قوالی کو منفرد انداز بخشنے والے عزیزمیاں قوال کو بچھڑے ہوئے آج چودہ برس گزر گئے لیکن ان کی قوالیاں آج بھی سننے والوں پر وجد طاری کر دیتی ہیں۔
بھارت کے شہر دہلی میں پیدا ہونے والے عزیز میاں قوال نے فن قوالی میں اپنے منفرد انداز سے وہ شہرت حاصل کی جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔دس سال کی عمر میں قوالی سیکھنا شروع کی تو سولہ سال کی عمر تک قوالی کی تربیت حاصل کرتے رہے،عزیز میاں قوال نے پنجاب یونیورسٹی سے اردو اورعربی میں ایم اے کی تعلیم حاصل کی،تصوف اور معارفت کی محفلوں میں وہ اپنا لکھاہوا کلام ہی پیش کرتے تھے۔
عزیز میاں قوال کی شہرہ آفاق قوالیوں میں،میں شرابی شرابی، تیر ی صورت، اللہ ہی جانے کون بشرہے اور دیگر شامل ہیں، 115 منٹ طویل قوالی اور حشر کے روز ہی پوچھوں گا،انھوں نے خود لکھی،خود کمپوز کی اور خود ہی دنیا کے سامنے پیش کی،ان کی قوالی سننے والوں پر وجد طاری کر دیتی ہے،حکومت نے ان کو کئی اعزازات سے نوازا، شاہ ایران نے بھی انہیں گولڈ میڈل پیش کیا تھا،عزیزمیاں ایران کے شہر تہران میں 06 دسمبر سن 2000کو بیماری کی حالت میں خالق حقیقی سے جا ملے۔