آج پاکستان کے مشہور فلمی شاعر فیاض ہاشمی کی تیسری برسی منائی جارہی ہے۔
فیاض ہاشمی1920ءمیں کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے،ان کے والد سید محمد حسین ہاشمی دلگیرتھیٹر کے معروف ہدایت کار اور شاعر تھے اور اپنے زمانے کے مشہور تھیٹر گروپ مدن تھیٹر لمیٹڈ سے وابستہ تھے، فیاض ہاشمی نے نہایت کم عمری سے گراموفون کمپنیوں سے وابستہ ہوکر ان کے لیے نغمہ نگاری شروع کردی تھی۔ ابتدا میں انہوں نے موسیقار کمل داس گپتا کی موسیقی میں بڑے یادگار نغمات تحریر کیے جو نہ صرف فیاض ہاشمی بلکہ کمل داس گپتا کی بھی پہچان بن گئے۔ ان نغمات میں طلعت محمود کی آواز میں گایا گیا نغمہ تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی سرفہرست تھا۔یہی وہ زمانہ تھا جب انہوں نے فلموں کے لیے نغمہ نگاری کا آغاز کیا۔ ان کی اس زمانے کی معروف فلموں میں رانی،صبح وشام، ایران کی ایک رات،امیری، جبل یاترا،میگھ دوت، چندر شیکھر، عربین نائٹ عرف الف لیلیٰ، کرشن لیلیٰ، پہچان، زمین آسمان، فیصلہ اور گری بالا کے نام شامل ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد فیاض ہاشمی اپنی گراموفون کمپنی کی جانب سے پہلے ڈھاکا اور پھر لاہور میں تعینات ہوئے۔ 1956ءمیں انہوں نے فلمی دنیا سے مستقل وابستگی اختیار کرلی۔ پاکستان میں بطور نغمہ نگار ان کی پہلی فلم دوپٹہ اور انوکھی اور آخری فلم دیوانے تیرے پیار کے تھی۔ انہوں نے جن مشہور فلموں کے نغمات تحریر کیے ان میں بیداری، سویرا، اولاد، سہیلی، رات کے راہی، پیغام، داستان، شبنم، ہزار داستان، دال میں کالا، دیور بھابھی، دل کے ٹکڑے، پیسے، چودھویں صدی، ظالم، گہرا داغ، صنم، توبہ، لاکھوں میں ایک، کون کسی کا، تقدیر، عالیہ، پھر صبح ہوگی، رشتہ ہے پیار کا، بہن بھائی، شریک حیات، عید مبارک، زمانہ کیا کہے گا، آشیانہ، بزدل، پازیب، نہلا پہ دہلا، لو ان جنگل، انجمن، رنگیلا، آوارہ، جاسوس، خدا اور محبت اور نشیمن کے نام سرفہرست ہیں۔انہوں نے مجموعی طور پر 122 فلموں میں نغمہ نگاری کی، 482 فلمی گیت تحریر کیے اور 24 فلموں کی کہانی اور مکالمے تحریر کیے۔
فیاض ہاشمی 29نومبر 2011ءکو کراچی میں وفات پاگئے۔وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔