کراچی: سانولی سلونی سی تیز ترار بچی دوسرے بچے کو دھکیلتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی،گویا خود کو لیڈر ثابت کرتی ہوئی کہنے لگی کہ’’ میں بتاتی ہوں کہ ہمیں پڑھنا ہے ،اب ہم بھیک نہیں مانگیں گے‘‘۔ ایک ننھی سی بغاوت تھی فٹ پاتھ پر بسیرا کرنے والی بچی کی اور پھر تین چار اور بچوں نے بھی یک آواز ہوکر غیر سرکاری تنظیم کے رضاکاروں کو بولا کہ ہم پڑھیں گےاور یوں پل کے نیچے ترپال بچھا کر فٹ پاتھ اسکول کا آغاز کردیا گیا۔
کراچی کے سفید پوشوں کے علاقے میں عبد اللہ شاہ غازی کے مزار کے سامنے ایک ماہ سے جاری فٹ پاتھ اسکول میں اب ایک سو کے لگ بھگ وہ بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں جو اپنے مسقتبل سے بے خبر ہیں۔یہ سڑک چھاپ بچے جو اسکول سے پہلے بھی اسی فٹ پاتھ پر بغیر کسی آشیانے کے سو جاتے تھے اور کچھ بچے قریب کی نیلم کالونی سے آئے ہیں جو پہلے بھیک مانگتے تھے،پھول بیچتے تھے یا پھر غازی کے مزار پر پکنے والی دیگوں سے چاول جمع کرکے گھر والوں کو کھلاتے پلاتے تھے۔
لیکن اب سماجی تنظیم اوشین ویلفیئر ایسو سی ایشن نے ان بچوں کے ہاتھ میں کتابیں تھما دی ہیں، اور اس کے ساتھ ہر بچے کو روزانہ پچاس روپے نقد رقم بھی دی جاتی ہے۔ نیلم کالونی کے ایک ہی گھر سے آنے والے تین بہن بھائی روازانہ شام کو دو سو روپے جب اپنی ماں کے سپرد کرتے ہیں تو ماں کہتی ہے، ’’میں صدقے جاواں میں واری تھیواں‘‘۔ اور یوں اس طرح غریب بچوں کو اسکول کے ساتھ ساتھ اسکول میں پڑھنے کا معاوضہ بھی دیا جاتا ہے۔شاید یہ دو کروڑ آبادی کا پہلا اسکول ہے جہاں طلبہ اور طالبات تعلیم بمع معاوضہ وسول کرتے ہیں۔
فٹ پاتھ اسکول کی روح رواں سیدہ انفاس علی شاہ کا کہنا تھا کہ ’’ یہ سارے بچےاسی علاقے کے ہیں، ہم ان بچوں کو یہاں پڑھانا چاہتے ہیں لیکن حیرت کی بات ہے ان اسٹریٹ چلڈرن کی تعلیم پر اعتراض کیا جا رہا ہے اور سڑک سے اسکول ہٹانے کے لئے دباؤ دالا جا رہا ہے۔اگر یہ ہی بچے اسی مقام پر نشہ استعمال کر رہے ہوں، غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہوں یا بھیک مانگ رہے ہوں تو کسی کو اعتراض نہیں ہوتا‘‘۔
انفاس علی شاہ کا خیال ہے کہ ’’وہ چاہتی ہیں کہ پورے کراچی کے فٹ پاتھوں پر اسٹریٹ چلڈرین کے لئے اسکول قائم کیئے جائیں لیکن یہ بات مافیا کو پسند نہیں،پولیس کو بھی صرف اسکول پر ہی اعتراض ہے۔یہ کہتی ہیں کہ بحریہ ٹاؤن نے بہت ہی خوب صورت فلائی اوور بنایا ہے اسی فلائی اوور کے ایک کونے پر ہم اسٹریٹ چلڈرین،غریب،یتیم بچوں کا اسکول چلا رہے ہیں ہم ہر وقت سیکیورٹی خطرہ بھی رہتا ہے بعض لوگ دھمکیاںبھی دیتے ہیں،اس لئے بحریہ ٹاؤن ان اسکولوں کی کفالت کرے،تعلیم ان بچوں کا بھی حق ہے‘‘۔
بچوں کے جمگھٹے میں زمیں پر بیٹھ کر یونیورسٹی کی طالبہ سحرش ان بچوں کو اے فار ایپل پڑھا رہی تھیں، سحرش نے بتایا کہ وہ کوئی تنخواہ نہیں لیتی روزانہ تین گھنٹے فٹ پاتھ اسکول کو دیتی ہے۔سحرش نے بتایا کہ ہم ان بچوں کو پچاس روپے بھی روزانہ دیتے ہیں تاکہ ان کے گھروں میں معاشی مسئلہ نا ہو ورنہ ان کے والدین بچوں کو پڑھنے نہیں دیں گے۔
میں نے سحرش سے پوچھا کہ آپ کا کیا خیال ہے میں ان پچاس ساٹھ بچوں میں کتنے ایسے بچے ہوں گے جو واقعی بھی تعلیم حاصل کرکے کچھ بن سکتے ہیں؟۔ جواب بڑا حیرت ناک تھا، انہوں نے کہا کہ ’’ یہ بچے گھروں میں بیٹھے بچوں سے زیادہ ذہین اور زیادہ تیز ہیں اور اکثر بچے تعلیم کی حاصلات چاہتے ہیں‘‘۔
ایک دوسری ٹیچر عظمیٰ گل ہے،جو ایک رضاکار ہے، میں دیکھ رہا تھا شدید گرمی میں دوپٹہ لپیٹ کر ننھی بچیوں کو کاپی پر انگریزی اے بی سی لکھوا رہی تھیں اور نوشاد نامی ٹیچر ان بچوں کو پاکستان کا ترانہ یاد کراتے ہوئے زندگی میں کچھ بننے کی تربیت دے رہا تھا۔
ابھی ہم کتاب تھامے پانچ سالہ نیہا سے بات ہی کر رہے تھے کہ مزار کی جانب سے دو بچے ہ بھاگتے ہوئے آئے اور گھبرائے ہوئے لہجے میں کہنے لگے’’ انک انکل وہ دیکھیں پولیس والا ہمیں مار رہا ہے‘‘۔ میں دیکھا کہ دور سے ایک سپاہی ہاتھ میں لاٹھی لیے چلا آرہا تھا، لیکن ہمارا کیمرہ دیکھ کر وہ عجلت میں پولیس موبائل میں بیٹھ کر روانہ ہوگیا۔مجھے بات سمجھ میں آنے لگی تھی کہ پولیس کو اعتراض کیوں نا ہو؟ کیونکہ این جی او کے لوگ، میڈیا کے لوگ، شہریوں کا جمگھٹا، پھر مزار کے سامنے چلنے والی دکان کا کیا ہوگا، پولیس اپنا کاروبار سڑک چھاپ بچوں کے لئے تو خراب نہیں کر سکتی نا۔البتہ پولیس کے افسران کا کہنا ہے کہ فٹ پاتھ پر اسکول کی موجودگی سیکیورٹی خدشہ ہے ۔
زمین پر اوڑھنا،بچھونا،کھانا پینا اور پھر زمین پر ہی سو جانا،در اصل یہ ہی زندگی ہے ان زمین کے تاروں کی۔جو اب علم کی روشنی سے چمکنا چاہتے ہیں،سچ ان بچوں کی آنکھوں میں بڑی چمک ہے اور یہہی مستقبل میں امید کی کرن بھی بن سکتے ہیں۔