چترال: جنت نظیرگول نیشنل پارک چترال کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے، ہزاروں ایکڑ رقبے پرمحیط گول نیشنل پارک کی اونچائی سطح سمندر سے تقریباً دس ہزار سے بارہ ہزارفٹ تک بلند ہے۔
مارخور، گیدڑ ،بھیڑیے، لومڑی، آئی بیکس ، شاہین، مرغ زریں اوربرفانی چیتے سمیت دنیا بھرکے حسین جانورچترال گول نیشنل پارک کا حسن ہیں۔
گول نیشنل پارل کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں تاہم یہ بین الاقوامی نیشنل پارک پاکستان کا حصہ ہے۔ وطنِ عزیزکے چاروں قومی اثاثے چترال گول نیشنل پارک ہی میں پائے جاتے ہیں۔
اس میں ہمارا قومی جانور مارخورموجود ہے جس کی تعداد 1500 سے 2500 تک ہے، اس میں ایسے مارخور بھی ہیں جن کے سینگوں کی لمبائی سترانچ سے زیادہ ہے، اگران مارخوروں کے شکار کی اجازت دی جائے تو ایسے مارخوروں کی قیمت دو سے تین کروڑ روپے بنتی ہے۔
پاکستان کا قومی درخت دیار بھی اسی پارک میں پایا جاتا ہے جن میں ہزاروں سال قدیم درخت بھی موجود ہیں۔ پاکستان کے قومی پھول چنبیلی نے بھی گول نیشنل پارک کے حسن میں خاطرخواہ اضافہ کیا ہے۔
پاکستان کے قومی پرندہ چکورکی مختلف نسلیں اسی پارک میں پائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ گیدڑ، بھیڑیا، لومڑی، آئی بیکس ، شاہین، مرغ زریں اوربرفانی چیتے بھی اسی نیشنل پارک میں پائے جاتے ہیں تاہم چند سالوں سے برفانی چیتے نظروں سے اوجھل ہیں اوران کے زندہ یا مردہ ہونے کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔
چترال گول نیشنل پارک میں سرکاری اورغیر سرکاری بااثرافراد غیر قانونی طور پرمارخور کا اب بھی شکاربھی کرتے رہتے ہیں۔اگر چترال گول نیشنل پارک کے بفرزون میں جانوروں کے محدود شکار کیلئے قانونی طورپراجازت دی جائےتو قانونی شکار کی آمدنی سے علاقے میں کروڑوں روپے کے ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا جاسکے گا۔
چترال گول نیشنل پارک کے موجودہ ڈویژنل فارسٹ آفیسر نے اس کی بہتری کیلئے نہایت اچھے اقدامات اٹھائے ہیں یہاں ایک ریسٹ ہاؤس بھی تعمیر کیا گیا ہے جس میں سیاح اورمحکمے کے افسران بھی موسم گرما اورسرما میں قیام کرکے ان قدرتی مناظر سے محظوظ ہوسکتے ہیں۔ موجودہ فاریسٹ آفیسرسے قبلچترال گول نیشل پارک کو سیاحوں، صحافیوں اور محققین کیلئے شجر ممنوعہ قرار دیا تھا جس کی وجہ سے بعض افراد کو چوری چپھے یہاں شکار کا موقع مل جاتاتھا تاہم اب اس میں سیاحوں اورعام لوگوں کی آمد سے غیر قانونی شکارکی شرح اگر ختم نہیں ہوئی ہے توکافی حد تک کم ضرور ہوئی ہے۔
چترال گول نیشل پارک میں ایک غیرسرکاری ٹرسٹ چئیر لفٹ لگانا چاہتا تھا جس سے یقینی طور پر یہاں کے سیاحت کو بہت فروغ مل سکتا تھا تاہم چترال کے سابق مہتر (حکمران) کے بیٹے نے اسے ناکام بنانے اور اسے تعمیر نہ کرنے میں بڑا کردار ادا کیا اگر چہ 1975 کے نوٹیفیکیشن کے مطابق سابق حکمران کے زیراستعمال تمام اراضی اورملکیت کواب سرکاری ملکیت قرار دیا جاچکا ہے مگراب بھی اس پر حکومت کا قبضہ نہیں ہے اور یہ لوگ اس قسم کے منصوبوں میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔