سیہون شریف کو زیادہ ترلوگ قلندرشہباز کی مناسبت سے جانتے ہیں لیکن نیشنل ہائی وے پرسیہون کی طرف جاتے ہوئے پہلے لکی کا پہاڑی سلسلہ ملتا ہے جو لکی شاہ صدرکے نام سے منسوب ہے۔ یہ خطہ سندھ کے لکیاری خاندان کی وجہ سے مشہوراورلکیاری سید سندھ میں بسنے والے چارطاقت ورسید گھرانوں میں سے ایک ہے۔ سہون سے مغرب کی جانب جاتے ہوے پہلے باجارہ اورجھانگارہ نامی چھوٹے شہرآتے ہیں جو لکیاری سیدوں کے شہرکہلاتے ہیں۔
باجارہ میں میں مشہوربزرگ نجف علی شاہ کا مزار ہے جبکہ جھانگارہ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ عبداللہ شاہ مرحوم کا آبائی شہر ہے جنہیں ایک زمانے میں عبداللہ شاہ واہڑائی بھی کہا جاتا تھا۔ عبداللہ شاہ لکیاری بنیادی طورپرسندھ کے زمیندار طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ عبداللہ شاہ پیپلز پارٹی میں اس وقت شامل ہوئے جب ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنی نو مولود جماعت کے لئے سندھ بھرکا دورہ کیا تھا۔
عبداللہ شاہ سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے، کابینہ میں بھی رہے لیکن جنرل ضیا کے مارشل لاء کے دوران پیپلز پارٹی کا ساتھ چھوڑ گئے تھے، بعد ازاں پھرشامل ہوئے۔ 1988 میں رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے، سندھ اسمبلی کے اسپیکر بنے، بعد میں سینٹر بھی بنے اور 1993 میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے عبداللہ شاہ کو سندھ کا وزیر اعلیٰ بنوایا۔
مزید پڑھیں: قائم علی شاہ کے سیاسی سفر پر ایک نظر
عبداللہ شاہ کے دور میں ان کے سب سے بڑے مخالف وزیراعظم کے بھائی مرتضیٰ بھٹو تھے اورپھروزیراعظم کے بھائی مرتضیٰ بھٹو بھی اسی دہشت گردی کے بھینٹ چڑھ گئے جس نے ہزاروں گھر اجاڑدیے تھے اوریہ بڑی وجہ بنی عبداللہ شاہ اوربے نظیر بھٹو کی حکومے کے خاتمے کی۔ جس کے بعدعبداللہ شاہ ملک چھوڑ گئے تھے۔
سندھ کے نئے وزیراعلیٰ کے لئے نامزد سید مرادعلی شاہ انہی مرحوم عبداللہ شاہ کے فرزند ہیں جو سندھ حکومت میں ہی افسربھی رہ چکے ہیں۔ مراد علی شاہ بنیادی طورپرانجنیئر ہیں، این ای ڈی یونیورسٹی سے ’بی ای‘ کرنے کے بعد سرکاری ملازمت میں چلے گئے۔ واپڈا میں جونیئرانجنیئر رہے، پورٹ قاسم اتھارٹی میں ایگزیکٹو انجنیئر، اورفش ہاربر اتھارٹی میں ڈائریکٹر رہے، بعد ازاں مراد علی شاہ امریکہ چلے گئے اورکیلیفورنیا کی یونیورسٹی سے ماسٹرزکی ڈگری لی۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو تبدیل کرنے کا فیصلہ
مراد علی شاہ نے2002 کے عام انتخابات میں حصہ لیا، رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔ مراد علی شاہ نے پڑھا لکھا ہونے کا حق ادا کیا اورحزب اختلاف میں بھرپورکردارادا کیا۔ مالی معاملات اور اسمبلی قوائد کے معاملے اس نوجوان سیاست داں کا کردار اچھا رہا۔ یہ ہی وجہ تھی کی 2008 میں انتخاب جیتنے کے بعد سندھ کے وزیر آب پاشی اورپھروزیر خزانہ بنے۔ جب سے قائم علی شاہ وزیر اعلیٰ ہیں، تب سے مراد علی شاہ سندھ کے خزانے کے مالک ہیں۔
مراد علی شاہ نا اہل بھی قرار دیئے گئے تھے لیکن پھرمشیر خزانہ بنادیے گئے، اپنے آبائی حلقے سے اپنے کزن کو منتخب کرالیا۔ اب بھی آب پاشی سے متعلق معاملات بھی مرادعلی شاہ ہی دیکھ رہے تھے۔ گزشتہ برس مراد علی شاہ کو سینئروزیرکا بھی ٹائٹل دیا گیا۔ یہ ہی ٹائٹل برسوں سے نثارکھوڑو کے پاس بھی ہے لیکن نثار کھوڑو ہمیشہ وزیراعلیٰ کے امیدوار ہی رہے، قسمت کی لکیروں نے ہمیشہ کھوڑو کے راستے بند رکھے اورقسمت کی دیوی نے کبھی نثار کھوڑو کی سینیارٹی کو اہمیت نہیں دی۔
وزیر اعلیٰ کے امیدواروں میں اپنے نام گنوانے والوں میں ویسے تو منظور وسان، آغا سراج درانی، خورشید شاہ، مخدوم جمیل زماں، میرہزارخان بجارانی بھی شامل رہےلیکن قسمت کی دیوی کی ساری مہربانیاں تین دن قبل دبئی چلی گئیں، بہانہ تو بنے رینجرز کے اختیارات، لیکن یہ ملاقات ایک بہانہ تھی، مراد علی شاہ سے پیار کا سلسلہ پرانا نکلا۔ پارٹی کے جواں سال چیئرمین بھی ان پرراضی نکلے، بڑے صاحب تو پہلے سے ہی مہرباں تھے اوراس طرح قسمت کی دیوی کی پھرکیا مجال تھی۔ اوراس طرح قائم علی شاہ کے مقابلے میں جوان دکھائی دینے والے چوون سالہ مراد علی شاہ سندھ کے نئے وزیراعلیٰ نامزد ہوئے ہیں۔
قلندر شہباز کی نگری میں مراد علی شاہ کے حامی دھمال لگا کر خوشیاں منا رہے ہیں لیکن سندھ کے پڑھے لکھے طبقے کا خیال ہے کہ مراد علی شاہ بھی قائم علی شاہ کی طرح فیصلوں میں آزاد نہیں ہوں گے۔ ان کی کابینہ میں کچھ نئے چہرے ہوں گے کچھ وزراء کے قلم دان تبدیل ہوں گے، لیکن سندھ کے حالات جس قسم کی تبدیلی کے خواہاں ہیں وہ کہیں اور پنہاں ہے۔ چہرے کی تبدیلی شاید ہی سندھ کی قسمت کو تبدیل کر سکے۔