ڈیر ہ اسماعیل خان میں ان دنوں سیاسی حالات کچھ یوں ہیں کہ احتجاج کرنیوالے عرفان کامرانی ہوں یا استقبال کرنیوالا علی امین ہو ان کا دم خم صرف پی ٹی آئی کی وجہ سے ہے‘ ورکرز کنونشن کی جوانتظامات کئے گئے تھے اس میں بھی بڑے پیمانے پر نہ صرف جھول بلکہ خامیاں تھیں۔ یہ جلسہ سرکٹ ہاؤس کے سبزہ زار تک محدود رکھا جاتا تو بھر پور انداز میں عوامی شمولیت کو ظاہر کیا جا سکتا تھا اور پیچھے پڑ ی خالی کرسیاں نہ منتظمین کا منہ چڑاتی نظر آتیں اور نہ ہی ’’پی ٹی وی‘‘ کو اس کے پروگرام میں نقب لگانے کا موقع ملتا۔
سرکٹ ہاؤس میں منعقدہ پی ٹی آئی کا ورکرز کنونشن ہلڑ بازی اور ہنگامہ آرائی اور بدنظمی کا عملی نمونہ تھا‘ مذکورہ جماعت میں مقامی سطح پر کوئی ایسی سنجیدہ قیادت نہیں ہے جو معاملات کو سلجھانے کیلئے کردار ادا کرسکے۔
کنونشن میں ضلع ناظم ‘ ایم پی ایزسمیع اللہ علیزئی اور احتشام جاوید ایسے تھے جیسے پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘اکرام اللہ گنڈہ پور اور داور کنڈی کی عدم شرکت بد اعتمادی کا مظہر ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں پی ٹی آئی کے منعقدہ ورکرز کنونشن نما جلسہ عام نے پی ٹی آئی کا ڈیرہ اسماعیل خان میں قائم رہا سہا بھرم بھی توڑ دیا ہے۔سرکٹ ہاؤس میں منعقدہ پی ٹی آئی کا ورکرز کنونشن ہلڑ بازی اور ہنگامہ آرائی اور بدنظمی کا عملی نمونہ تھا۔سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات بھی ورکرز اور قائدین میں دوری کا سبب بنے۔
سرکٹ ہاؤس میں پی ٹی آئی کی قیادت نے ورکرز کنونشن کی جوانتظامات کئے گئے تھے اس میں بھی بڑے پیمانے پر نہ صرف جھول بلکہ خامیاں تھیں۔ سٹیج کی بناوٹ اور سیکورٹی کے انتظامات نے اس اہم جلسہ کی خوبصورتی اور اہمیت کو متاثر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ بدنظمی اور کارکنوں کی ہنگامہ آرائی سے عام شہریوں نے اس سے براتاثر لیا ہے اور یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ مذکورہ جماعت میں مقامی سطح پر کوئی ایسی سنجیدہ قیادت نہیں ہے جو معاملات کو سلجھانے کیلئے کردار ادا کرسکے دیگر جوپارٹی کے سینئر اور سنجیدہ اراکین تھے انہیں سٹیج سے دور عام لوگوں میں پایا گیا۔
عمران خان کی ڈیرہ اسماعیل خان آمد 2نومبر کو اسلام آباد میں ہونیوالے میچ میں تماشائیوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنانا ہے۔ قبل ازیں عمران خان کے ڈیرہ اسماعیل خان اور ملک کے دیگر حصوں میں ہونیوالے جلسے اس بات کے گواہ ہیں کہ عوام کی ایک بڑی تعداد پی ٹی آئی کے جلسوں میں شرکت کرکے ان کی پالیسیوں کی حمایت کرتی نظر آتی ہے۔
یہاں یہ امر توجہ طلب ہے کہ مقامی قیادت نے جلسہ گاہ کے مقام اور اس ضمن میں کئے جانیوالے انتظامات کو مناسب انداز میں ترتیب نہیں دیا ۔ اگر یہ جلسہ سرکٹ ہاؤس کے سبزہ زار تک محدود رکھا جاتا تو بھر پور انداز میں عوامی شمولیت کو ظاہر کیا جا سکتا تھا اور پیچھے پڑ ی خالی کرسیاں نہ منتظمین کا منہ چڑاتی نظر آتیں اور نہ ہی ’’پی ٹی وی‘‘ کو اس کے پروگرام میں نقب لگانے کا موقع ملتا۔
سرکٹ ہاؤس میں وسیع و عریض حصے میں جلسہ کرنا تھا تو اس کیلئے کافی عرق ریزی کی ضرورت تھی لیکن جس کیلئے منتظمین نے کوئی کوشش کی نہیں۔ یہ تو بھلا ہو جنوبی اضلاع ٹانک ‘ لکی مروت‘ بنوں ‘ کرک اور جنوبی وزیرستان کے لوگوں کا کہ انہوں نے شرکت کر کے پی ٹی آئی کے جلسہ کا بھرم رکھ لیا وگرنہ قیادت نے تو اس کو ناکام بنانے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی جلسہ میں مقامی لوگوں کی شرکت نہ ہونے کے برابر تھی ۔ دوسری جانب رہی سہی کسر احتجاج میں آنیوالے آئی ایس ایف کے کارکنوں نے نکال دی۔ جنہوں نے جی پی اوموڑ پر اپنی الگ دکان سجا کر کپتان کے جلسہ کوناکام بنانے میں اہم کردار اداکیا۔
ورکرز کنونشن کو اگر علی امین شوکہا جائے تو بے جانہیں ہوگا کیونکہ اس موقع پر ضلع ناظم عزیز اللہ علی زئی ‘ ایم پی اے سمیع اللہ علیزئی اورایم پی اے احتشام جاوید ایسے تھے جیسے پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔ ان تمام احباب کا جلسہ میں کسی قسم کا کوئی کنٹری بیوشن دیکھنے کو نہیں آرہا تھا ماسوائے ان کی اپنی موجودگی کہ جبکہ اکرام اللہ خان گنڈہ پور صوبائی وزیر زراعت اور این اے 25کے ایم این اے داور کنڈی کی غیر موجودگی کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے یہ دونوں اسی جلسہ میں شریک ہوئے اور نہ ہی ان کے حامی اورجو ایم پی اے ضلع ناظم شریک تھے ان کے حامی اور ووٹرز تو تھے ہی نہیں ان کے دائیں بائیں پھرنے والے چاچے سٹیج پر ضرور موجود رہے ۔
دوسری جانب قبائلی نوجوانوں نے اس جلسہ میں بھرپورشرکت کر کے اس پارٹی پر اپنی حاکمیت ثابت کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور ڈیرہ شہر میں منعقد ہونیوالے میں سیاسی جلسوں کی طرح اس جلسہ میں مقامی لوگوں نے اپنی روایتی بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا ۔ علی امین گنڈہ پور سمیت پی ٹی آئی کے تمام کارکنان خود کو عمران خان تصور کرتے ہیں لیکن یہ بات ہرکوئی جانتا ہے کہ عمران خان ایک طلسماتی شخصیت کے حامل ہیں اور پی ٹی آئی کی اہمیت انہی کی ذات سے وابستہ ہے علی امین سمیت ان کے تمام حامیوں و مخالفین کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ عمران خان کے علاوہ پارٹی میں کوئی دوسرا عمران خان نہیں ہے احتجاج کرنے والے کامرانی ہوں یا عمران کا استقبال کرنے والا علی امین گنڈہ پور ہو انہیں سولوفلائٹ سے قبل یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ ان کا دم خم صرف پی ٹی آئی کی بدولت ہے موجودہ صورتحال میں علی امین کیخلاف احتجاج نقار خانے میں طوطی کی آواز کی مانندہے۔ ع
مران خان کے سٹیج وجلسہ گاہ کے انتظامات کسی تربیت یافتہ ادارے کے حوالے کر دیئے جاتے تو نہ بدنظمی ہوتی اور نہ ہی اوٹ پٹانگ قسم کا سٹیج ہوتا۔ ایک چھت پرسٹیج دوسری چھت پر میڈیا کے نمائندے اور کیمرہ مین تھے ۔ سٹیج کی ترتیب اس طرح تھی کہ ٹی وی چینل عمران کی آمد سے لیکر ان کی سٹیج پر موجود گی کو کور کرنے سے قاصر رہے اور تقریر سے قبل جتنی دیر وہ سٹیج پر موجود رہے ٹی وی چینلزکے کیمروں سے اوجھل رہے جو سٹیج کی بناوٹ اور ترتیب میں کمی و کوتاہی کی بڑی مثال تھی۔عمران خان کے ساتھ احتجاج کرنے والے کارکنوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ وہ کسی کی پروا کئے بغیر کام کرنے کے عادی ہیں اور صرف چند لوگوں نے ان کے حلقہ نیابت میں ہیں ان میں ایک علی امین خان گنڈہ پور ہیں ۔عرفان کامرانی جن کی ساری اہمیت پی ٹی آئی کی مرہوں منت ہے وہ کسی طور بھی علی امین کی راہ کھوٹی نہیں کر سکتے ہیں ان کے گھر میں ان سمیت ضلع و تحصیل کونسل کے چار اراکین ہیں جن میں پی ٹی آئی کے اور دوکا تعلق جمعیت علماء اسلام سے ہے عمران خان ایک ایسے موڑ پر جہاں ان کی تحریک ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے وہاں پر وہ علی امین ایسے مخلص ساتھی کے خلاف کسی سخت اقدام سے گریز کریں گے۔
دوسری جانب اسرار گنڈہ پور گروپ سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھی 3سال گزرنے کے باوجود کو قاتلوں کی گرفتاری نہ ہونے پر بھی احتجاج بھی کیا یہ دونوں احتجاج پی ٹی آئی کے اندر ونی اختلاف کی کہانی بیان کر رہے تھے یہ بات کسی حد تک طے ہے کہ آئندہ الیکشن میں صوبائی نشستوں پر موجود ایم پی ایز نئی صف بندی میں مصروف ہیں اور بالخصوص سمیع اللہ علیزئی اپنی نشست کو بچانے کیلئے گزشتہ الیکشن کی طرح کسی کو بھی دھوکہ دے اور کسی کی حمایت حاصل کر نے کیلئے کچھ بھی آسکتے ہیں اس وقت صوبے میں اندرونی اورظاہراً مختلف محاذوں پر پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کی صوبائی حکومت کے ساتھ ناراضگی موجود ہے اور اسی طرح پارٹی کے اندر بھی اختلافات سر اٹھا رہے ہیں جو صوبے میں پارٹی کے نقصان کا باعث بن سکتے ہیں ۔
ورکرز کنونشن میں عوام کی عدم دلچسپی یا کم لوگوں کی شرکت نے پارٹی قیادت کیلئے یہ پیغام چھوڑا ہے کہ اگر پارٹی کے اندر ہونیوالے اختلافات کا خاتمہ نہیں کیا جاتا یا محروم اور پسماندہ علاقوں کی محرومیوں کا ازالہ نہیں جاتا یہ خلیح مزید وسیع ہوتی ہوئی پارٹی پوزیشن پر اثر انداز ہو گی جس کا خمیازہ بہر صورت پارٹی کو آئندہ الیکشن میں بھگتنا ہو گا ۔ڈیرہ اسماعیل خا ن میں مولانا صاحبان کی شان بے نیازی کے باوجود ان کے مخالفین کی جوتیوں میں بٹتی دال مولانا کی سیاسی اہمیت و حیثیت کو مہمیز دے رہی ہے۔