دنیا کی ہر آسائش سے لطف اندوز ہونے والے امراء یوں تو ہر محفل میں وی آئی پی پروٹوکول حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں اور دنیاوی زندگی میں ہر کوئی ان کی عزت بھی کرتا ہے جب کہ دوسری جانب فقرا کو نظر انداز کیا جاتا ہے لیکن دربارِ الٰہی میں مال داروں اور فقراء کے بارے میں یہ کلیہ دنیا کے مقابلے میں بالکل الٹ ہو گا۔
علامہ پیر محمد ثاقب اقبال شامی نے اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے اسلامی چینل کیو ٹی وی کے پروگرام میں اسلام میں فقراء کا مقام پر درس دیتے ہوئے کہا کہ دنیا میں ہر شخص چاہتا ہے کہ مفلسی دور ہو جائے اور وہ خوشحال ہو جائے لیکن جب دربار الہی میں محشر کا میدان سجے گا تو رب العالمین کی جانب سے فقراء پر انعامات کی بارش ہوگی جس پر مالدار لوگ حسرت سے پکار اٹھیں گے کہ اے کاش ہم بھی دنیا میں فقیر ہوتے تو آخرت میں قربت الہی سے فیض یاب ہوتے۔
علامہ پیر محمد ثاقب نے کہا کہ مال داروں کے مقابلے میں غربا اور فقرا کا مقام زیادہ اعلیٰ و ارفع ہے ، ’’سنن ابن ماجہ کی ایک حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ امت کے فقراء مالداروں کی بہ نسبت 500 سال قبل جنت میں داخل ہوجائیں گے‘‘ جب کہ دوسری جگہ ارشاد ہوا کہ مالداروں کو سخت حساب کتاب کا سامنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ ’’اللہ تنگ دست لوگوں کو اپنا دوست رکھتا ہے‘‘ جب کہ ایک دوسری حدیث میں آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زبانِ مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے کہ ’’میری امت کے بہترین لوگ فقراء ہیں‘‘۔
اسی طرح رحمت اللعالمین ﷺکی ایک اورحدیث میں بیان ہوتا ہے کہ ’’جنت میں وہ لوگ چستی اور چابک دستی سے جنت میں سیر کیا کریں گے جو دنیا میں ضعیف، لاغر اور کمزور تھے یہ اللہ کا فقراء پر انعام ہے‘‘۔
پیر محمد بن ثاقب نے ایک حدیثؐ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے بڑی وضاحت سے فرمایا کہ ’’دونوں جہانوں میں فقرا کے لیے خوش خبری ہے‘‘ کیوں کہ آخرت میں ہر آسائش اور نعمت کا حساب لیا جائے گا دنیا میں جتنی دولت زیادہ ہو گی آخرت میں اتنا ہی حساب دینا ہوگا۔
فقیر کون ہے؟ یہ ضرور پڑھ لیں
یہ بات واضح رہے کہ یہاں فقرا سے مراد وہ گداگر یا بھکاری نہیں جو لوگوں سے بھیک مانگے بلکہ یہاں مراد فقیر ہے جس کا اصطلاحاً مطلب ہے کہ ف سے فاقہ، ق سے قناعت، ی سے یاد الٰہی اور ر سے ریاضت۔
ف سے فاقہ
یہاں مراد ہے کہ اگر فقیرکے پاس کھانے کو کچھ نہ ہو تب بھی وہ کسی کے آگے دامن نہ پھیلائے محض اللہ رب العزت سے لو لگائے، جو مال پاس ہو وہ اللہ کی راہ میں خیرات کردے، اللہ پر توکل رکھے اس چڑیا کی طرح جو صبح گھونسلے سے نکلتی ہے تو یہ نہیں سوچتی کے رزق کہاں سے ملے گا اور نہ اگلے وقتوں کے لیے سنبھال کے رکھتی ہے۔
ق سے قناعت
یعنی جو مل جائے اسے اللہ رب العزت کی طرف سے عطا سمجھے، نفس کی خواہشات پر چلتے ہوئے تمنائیں نہ رکھے کیوں کہ خواہش تو بادشاہ کی بھی پوری نہیں ہوتی جب کہ ضرورت تو فقیر کی بھی پوری ہوجاتی ہے۔
ی سے یاد الٰہی
یہاں مراد یہ ہے کہ فقر رکھنے والا شخص ہر لمحے یاد الٰہی میں محو رہے کہ ماسوائے اللہ کوئی یاد نہ رہے۔
ر سے ریاضت
یعنی نماز، روزہ اور جسمانی ریاضت کی حامل تمام فرض عبادت کو کرے ساتھ نفلی جسمانی ریاضت سے بھی اپنے رب کو راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے، سستی و غفلت کا مظاہرہ نہ کرے کہ کوئی عبادت ہاتھ سے چھوٹ جائے۔