ہم 14 اگست 2017ءکو وطن عزیز کا 70 سالہ جشن ”شکریہ پاکستان“ کے نام سے منائیں گے اور اس دوران اے آروائی نیٹ ورک ان عظیم لوگوں کو (چاہے وہ زندہ ہیں یا اس جہاں سے گزر گئے)‘ خراجِ تحسین اور خراجِ عقیدت پیش کرے گا، جنہوں نے70 سالوں میں کارہائے نمایاں کام کئے اور عوامی پذیرائی صراطِ مستقیم پر رہتے ہوئے حاصل کی۔ بالغ نظری کا تقاضا ہے کہ ان کے روشن خیالوں پر مزید روشنی ڈالی جائے اور ان کے یہ کارنامے ”شکریہ پاکستان“ کی جانب سے14 اگست کو لائیو پروگراموں میں پیش کئے جائیں گے۔
دکھی انسانیت کے ہمدرد عبدالستار ایدھی کے لئے تو کیا خوب شاعر نے کہا ہے۔۔۔
دنیا کی وسعتوں میں کھوگئے ہو تم
مٹی کے نرم بستر پر سوگئے ہو تم
وہ حسن نظر وہ محبت کی رعنائیاں
ڈھونڈیں کہاں پردیس جو گئے ہو تم
عبدالستار ایدھی کی تکریم میں لکھے جانے والے الفاظ بھی صف بہ صف ادب سے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ہمارے پاس تو اتنا مواد بھی نہیں جتنی ان کی اس قوم کے لئے بپھرے ہوئے سمندر کی طرح خدمات تھیں۔ گجراتی زبان میں پانچ جماعت تعلیم حاصل کرنے والے ایدھی تو خدمت اور محبت کے شہہ سوار تھے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ہمدردی اور غمگساری کا مجسمہ تھے۔ایدھی ایک فرد کا نام نہیں ایک ارادے کا نام تھا، وہ آج ہمارے درمیان نہیں مگر ہمارے دلوں میں ہمیشہ منور رہیں گے۔ ایدھی سینٹر میں کام کرنے والے انہیں پیار سے ”بابا“ کہتے تھے۔ وہ واقعی غریبوں اور لاچاروں کے لئے ”بابا“ کی حیثیت رکھتے تھے۔
آزادی کے اس عظیم موقع پر ہم ڈاکٹر قدیر خان کی گراں قدر خدمات کو کیسے نظر انداز کرسکتے ہیں کہ جنہوں نے قومی سلامتی و استحکام کے لئے اس قوم کو ایٹم بم سے نوازا اور آج یہ قوم ان کی وجہ سے دنیا میں فخر سے سر اٹھا کر چلتی ہے۔
معروف صوفی بزرگ ”بابا بلھے شاہ“ کی نگری قصور میں مددعلی کے ہاں جنم لینے والی ایک بچی جس کا نام اللہ وسائی تھا، نصف صدی سے زیادہ موسیقی کے ایوانوں کی شہزادی کہلانے والی فن موسیقی کے انمٹ نقوش دلوں پر چسپاں کرکے امر ہونے والی گلوکارہ نورجہاں کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں، جو 23 دسمبر 2000 رمضان المبارک27 ویں شب کو اپنے چاہنے والوں کو چھوڑ کر اس بزم کی مہمان ہوئیں، جہاں سے کوئی واپس نہیں آیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ہمارے ملک کا سرمایہ تھیں۔
ڈاکٹر ادیب رضوی جس نے روایات کی پاسداری کا احترام کرتے ہوئے اس قوم کی خدمت میں دن رات ایک کردیا، وہ سول اسپتال میں کڈنی ٹرانس پلانٹ 2003ءسے متواتر کررہے ہیں، جو پاکستان کے سب سے پہلے سرجن ہیں، جنہیں گزشتہ دنوں کراچی پریس کلب میں سندھی ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ نے ایوارڈ سے نوازا۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کی خدمات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ بی بی سی کی اردو سروس ہمیشہ انہیں خراجِ تحسین پیش کرتی رہتی ہے۔
عمران خان کو ہم ان کے دو کاموں کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھیں گے اور ان کاموں کی وجہ سے عوام کی دلی قربت ان کے ساتھ رہے گی۔ 1992ءمیں پاکستان کو ورلڈکپ کا اعزاز دلایا، اس کے بعد آج تک پاکستان پھر کرکٹ میں ورلڈکپ کا اعزاز حاصل نہ کرسکا۔ دوسرا کام انہوں نے دیانت اور تندہی سے شوکت خانم اسپتال کا اجراءکیا، جہاں غریبوں کا کینسر کا علاج بالکل مفت ہورہا ہے۔ 20 سے30 لاکھ تک کینسر کے مریضوں کی کیمو تھراپی مفت میں کی جارہی ہے، ان کی ان دونوں خدمات کو یہ قوم نظر انداز نہیں کرسکتی۔
یاد ِرفتگاں میں ہم قدسیہ بانوں کو کیسے بھول سکتے ہیں، جن کی تحریروں کا نکتہ نظر یہ تھا کہ اسلام وہ دین ہے، جس نے بہن، بیوی، بیٹی اور ماں کو قابل احترام درجہ دیا۔ بانو قدسیہ کی تحریوں میں اتنا استقلال پایا جاتا ہے کہ انہوں نے دکھ کو روحانیت کی سیڑھی قرار دیا۔ انہوں نے ہمیشہ لوگوں کو باور کرایا کہ تعلیم کے باوجود تربیت کا فقدان معاشرے اور خاندان دونوں کے توازن کو بگاڑ دیتا ہے۔
معین اخترم (مرحوم) کی خدمات ناقابل فراموش ہیں، صدارتی ایوارڈ کے علاوہ دنیا بھر کے ایوارڈ ان کی جھولی میں ڈلتے چلے گئے اور پھر عمر کے ایام میں جب وہ بیمار تھے تو بیماری کے باوجود اے آروائی کے پروگرام ”لوز ٹاک“ کرتے رہے، جو ناظرین کا من پسند پروگرام تھا، جسے نامور ادیب، مصنف اور صحافی انور مقصود نے تحریر کیا تھا۔ انور مقصود کی شخصیت بھی نہ بھولنے والی شخصیت ہے کہ انہوں نے طنز و مزاح کو اپنے قلم سے تراشا اور آج بھی وہ ایک خاص طبقے میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔
حکیم سعید (مرحوم) اپنی مثال آپ تھے، سادگی کا یہ عالم تھا کہ جب وہ سندھ کے گورنر تھے تو روزانہ آرام باغ میں اپنے مطب میں صبح6 بجے سے لے کر8 بجے تک بغیر کسی پروٹوکول کے مریضوں کو دیکھا کرتے تھے۔ اس سے بڑی اور کیا سادگی ہوگی۔
گلوکار مہدی حسن فنِ گلوکاری کے شہزادے تھے، ان کی تعریف و توصیف میں تو بہت بڑا آرٹیکل لکھا جاسکتا ہے۔ 35 ہزار گیت غزلیں، ٹھمری، طربیہ، المیہ، غرض ہر قسم کے انہوں نے گیت گائے مگر جب انہوں نے ایک گیت فلم ”عظمت“ کا گانا گایا، جس کے خوب صورت بول تھے۔
زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں
میں تو مر کے بھی میری جان تجھے چاہوں گا
اس گیت کو سننے کے بعد صفِ اول کی بھارتی گلوکارہ” لتا منگیشکر“ نے کہا تھا کہ مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتے ہیں۔ وہ اس قوم کے ہر دل عزیز گلوکار تھے اور اللہ نے انہیں آواز کے اعزاز و اکرام سے نوازا۔
فلم چکوری سے اپنا فنی سفر شروع کرنے والے اداکار ندیم کے کریڈٹ پر سینکڑوں کامیاب فلمیں ہیں۔ اداکار ندیم وہ اداکار ہیں جن کی پہلی فلم ”چکوری“ نے فلم انڈسٹری میں سپرہٹ بزنس کیا تھا اور پھر اس کے بعد انہوں نے کامیابی کے تناظر سے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ فلم ”آئینہ“ پاکستان کی وہ فلم ہے جو 4 سال تک نمائش پذیر رہی، فنِ اداکاری میں ندیم کی شخصیت کا اپنا ایک معیار رہا۔
جہانگیر خان نے اسکواش میں ہمیشہ پاکستان کو سرخرو کیا اور وہ ایک طویل عرصے تک اسکواش کے چیمپئن رہے۔
یہ وہ لیجنڈ تھے جن کے بارے میں مختصر تحریر کیا گیا اور ابھی اس ملک کے خزانے میں بہت سے لیجنڈ اور بھی ہیں جن کی تفصیل میں گئے تو ہزاروں اوراق کی ضرورت پڑے گی مگر ہم ان کا نام ضرور تحریر کریں گے تاکہ اے آروائی کے ”شکریہ پاکستان“ میں آپ اپنی رائے میں انہیں بھی شامل کرکے ووٹ کا حق دار ٹھہرادیں مثلاً۔۔۔ جاوید میاں داد، سرفراز نواز، ظہیر عباس، بشریٰ انصاری، عابدہ پروین، بابرہ شریف، موسیقار نثار بزمی اور جنید جمشید۔
آپ ان لیجنڈ شخصیات کو نامزد کرکے خراجِ تحسین اور خراجِ عقیدت پیش کریں تو ”شکریہ پاکستان“ کے لائیو شو میں آپ کی پسندیدہ لیجنڈ شخصیات کو نمایاں اور خصوصی طور پر پیش کیا جائے گا۔ یاد رکھیں پاکستان ہے تو ہم ہیں اور ہم ہیں تو پھر ”شکریہ پاکستان“۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔