اشتہار

جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجیئے

اشتہار

حیرت انگیز

جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجیئے
جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجیئے
یہ زندگی ہے تو پھر زندگی کو کیا کیجیئے
رکا جو کام تو دیوانگی ہی کام آئی
نہ کام آئے تو فرزانگی کو کیا کیجیئے
یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا
مگر سرشت کی آوارگی کو کیا کیجیئے
کسی کو دیکھ کے اک موج لب پہ آ تو گئی
اٹھے نہ دل سے تو ایسی ہنسی کو کیا کیجیئے
ہمیں تو آپ نے سوز الم ہی بخشا تھا
جو نور بن گئی اس تیرگی کو کیا کیجیئے
ہمارے حصے کا اک جرعہ بھی نہیں باقی
نگاہ دوست کی مے خانگی کو کیا کیجیئے
جہاں غریب کو نان جویں نہیں ملتی
وہاں حکیم کے درس خودی کو کیا کیجیئے
وصال دوست سے بھی کم نہ ہو سکی راشدؔ
ازل سے پائی ہوئی تشنگی کو کیا کیجیئے

**********

Comments

اہم ترین

مزید خبریں