بدھ, فروری 5, 2025
اشتہار

ٹی وی ڈراما کا سفر …. بشریٰ انصاری سے ایک مکالمہ

اشتہار

حیرت انگیز

ٹی وی ڈراما کا سفر کے عنوان سے آرٹس کونسل میں عالمی اُردو کانفرنس کے تیسرے روز کے خصوصی پروگرام میں ممتاز ادیبوں اور دانشوروں نے کہاکہ ماضی میں ٹی وی پر دکھائے جانے والے ڈراموں میں پورے پاکستان کا کلچر دکھایا جاتا تھا۔ اشفاق حسین بانو قدسیہ، بجیا، حسینہ معین اور اس سطح کے بڑے ادیب ڈراما لکھتے تھے جس کا معاشرہ پر اچھااثر پڑتا تھا۔ ڈراما کا جب سفر شروع ہوا تو مسافر وہ لوگ تھے جن کو اس سفر کا ہنر آتا تھا بلکہ وہ اس کے ماہر تھے، وہ لکھاری تھے اور ادب پر دسترس حاصل تھی۔

ایوب خاور نے کہاکہ صفدر میر، اشفاق، بانو، منو،بجیا، حسینہ اتنے بڑے ادیب ہیں‘ انہوں نے جب ڈرامے لکھے تو پورے پاکستان کو دکھایا اور معاشرے کی ایک خاص طرح کی تربیت کی جو ہماری روزمرہ زندگی میں تبدیلی پیدا ہوئی۔

حسینہ معین نے کہاکہ ڈرامے میں بہت زیادہ رومانس نظر آنے لگتا ہے تو وہ بے ہنگم ہوجاتا ہے اور بُرا لگتا ہے، ڈرامے کا سفر جب شروع ہوا تو مسافر وہ لوگ تھے جن کو یہ کام نہ صرف آتا تھا بلکہ وہ اس کام کے ماہر تھے اور لکھاری وہ تھے جو ادیب تھے جن کے ادب پر ڈرامے بنے۔ اس وقت جب ڈرامے نشر ہوتے تھے تو سڑکیں سنسان ہوجاتی تھیں ۔ڈرامہ وہ چیز ہے جس کا اثر اچھا ہوتو وہ خوشبو کی طرح قائم رہتا ہے اگر بُرا ہو تو پوری نسل کو برباد کردیتا ہے، آج کل 120چینلز پر روزانہ تقریباً 3ڈرامے دکھائے جاتے ہیں جن میں اچھی اور بُری چیزیں دونوں چل رہی ہیں جس کا انجام آپس میں جھگڑے اور خرابیاں پیدا ہورہی ہیں۔

جنہوں نے ٹی وی شروع کیا تھا ان کو دیکھ کر لگتا تھا وہ آسمان کو چھو لیں گے۔صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہاکہ پہلے ڈرامہ کمرشل ازم کا شکار نہیں تھا اب اس کو اسی سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ زمانے کی رفتار تیز ہوگئی ہے نئی نسل کی سوچ بدل گئی ہے۔جو ادیب پہلے لکھ رہا تھا وہ سماج کو دیکھ کر لکھتاتھا آج کا نوجوان جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ منسلک ہے۔ اقبال لطیف نے کہاکہ پہلے جو ڈرامے بنتے تھے ایک ایک بندہ اپنا آؤٹ پٹ دیتا تھا اب یہاں صرف مارکیٹنگ کے حساب سے سب چلتا ہے اب لکھنے والوں کو بھی مجبور کیا جاتا ہے کہ یہ نہیں یہ لکھیں۔

امجد اسلام امجد نے کہاکہ جب پی ٹی وی آیا اس وقت بھی تین میڈیم تھے ریڈیو، فلم اور تھیٹر۔ ان میڈیم کے دائرے محدود تھے اس وقت بھی لگتا تھا کہ یہ تینوں میڈیم اکٹھے ہونے چاہئیں تو پی ٹی وی اسکرین پر آپ کو پورا پاکستان نظر آتا تھا۔ ہمارے مسائل ہماری ثقافت ہمارا رقص موسیقی سب نظر آتا تھا جس کا رشتہ ہماری زمین اور اصل سے ہوتا تھا۔جس وقت میں اور میرے ساتھی ڈرامہ لکھتے تھے اس وقت پوری ٹیم ایک ساتھ کام کرتی تھی ڈرامے کی ریہرسل چار پانچ کی جاتی تھی ڈرامے دیکھنے والے اب تماشا دیکھنے والے بن گئے ہیں۔


دریں اثناء”بشریٰ انصاری کے ساتھ ایک مکالمہ“ کے پروگرام میں مہتاب اکبر راشدی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے بشریٰ انصاری نے کہاکہ دس سال کی عمر میں پَری بن کر آئی۔ بچوں کے پروگرام میں لاہور چینل سے یہ پروگرام نشر ہوتاتھا یہ کہہ لیں کہ سب سے پہلی بات کہ ماں باپ سے ہمیں کیا کیا گفٹ ملے ہیں، وہ ماحول گھر بار آپ پر کتنا مضبوط ہوتا ہے، موسیقی سے محبت والد سے ملی، گھر میں آنے والے ممتاز دانشور تابش دہلوی، سبط حسن، منو بھائی سے ہمیں یہ ماحول ملا۔

اس خوشبو اور ماحول میں رہنا ہی بڑی سعادت ہے۔ ابو بہت سخت تھے 5بجے کے بعد جانا پسند نہیں کرتے تھے۔ ابو پروگریسیو بھی تھے، ابن انشاءبھی آتے تھے ماحول کتابی اورموسیقی کا تھا۔ ان کی باتیں سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ گانے کے لئے استاد فتح علی خاں کے پاس جاتی تھی۔بہت سے اچھے لوگوں کے ساتھ بیٹھنا نصیب ہوا۔ تلفظ کی ادائیگی درست کرائی گئی۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ اگر 150ڈرامے بُرے بن رہے ہیں تو 5ڈرامے اچھے بھی بن رہے ہیں۔ ہم کمرشل ازم کو 100 فیصد بُر انہیں کہہ سکتے بلکہ یہ اچھی بات ہے کہ آرٹسٹوں نے اچھا کمالیا ہے یہ کمرشل ازم کا فائدہ ہوا ہے۔

میں نےجو کچھ سیکھا زندگی سے سیکھا۔ میں نے اپنے بچوں سے بہت کچھ سیکھا ہے میں بہت خوش ہوں۔ ہم نے بہت محنت کی ہے میں بس میں بھی اسکول گئی ہوں جو لوگ اپنی بیویوں کو سپورٹ کرتے وہ بہت بہادر ہوتے ہیں۔

بشریٰ انصاری نے کہاکہ ٹی وی ڈرامے کی بنیاد ادب سے ریڈیو اور ریڈیو سے ٹی وی پرمنتقل ہوئی اس وقت صرف لکھنے والوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی بات اچھے سلیقے سے لوگوں تک پہنچائیں، میں مایوس نہیں ہوں جہاں کچھ بُرا چل رہا ہے وہاں اچھا بھی چل رہا ہے۔


اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

اہم ترین

انور خان
انور خان
انور خان اے آر وائی نیوز کراچی کے لیے صحت، تعلیم اور شہری مسائل پر مبنی خبریں دیتے ہیں

مزید خبریں