آج پاکستان میں ایوانِ بالا یعنی سینٹ کی 52 نشستوں کے لیے انتخابات کے لیے پولنگ جاری ہے‘ اس موقع پر پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو پولنگ بوتھ قرار دیا گیا ہے ‘ اور ممبرانِ اسمبلی ووٹر ہیں۔ کل 131 امیدوار میدان میں ہیں ۔
ایوان بالا یعنی سینٹ کے اجزائے ترکیبی کچھ یوں ہیں کہ 104 سینیٹرز کے اس ایوان میں چاروں صوبوں سے کل 23 تئیس ارکان ہیں۔ جن میں سے 14 عمومی ارکان، 4 خواتین، 4 ٹیکنوکریٹ اور 1 اقلیتی رکن ہے۔ فاٹا سے 8 عمومی ارکان سینٹ کا حصہ ہیں۔ اسلام آباد سے کل 4 ارکان ہیں جن میں سے 2 عمومی جبکہ ایک خاتون اور 1 ہی ٹیکنوکریٹ رکن ہے۔
سینیٹرز کی آئینی مدت 6 برس ہے اور ہر تین برس بعد سینٹ کے آدھے ارکان اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوتے ہیں اور آدھے ارکان نئے منتخب ہوکر آتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی سینٹ کی آدھی یعنی 52 نشستوں پر انتخابات ہونے جار ہے ہیں۔ سندھ اور پنجاب سے 12 بارہ سینٹرز کا انتخاب ہوگا۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے 11 گیارہ سیینیٹرز منتخب ہونگے جبکہ فاٹا سے 4 اور اسلام آباد سے 2 ارکان ایوان بالا کا حصہ بنیں گے۔
قانون کے مطابق سینٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری اور ترجیحی ووٹ کی بنیاد پر منعقد کئے جاتے ہیں جس کی گنتی کا طریقہ کار مشکل اور توجہ طلب ہے۔ سمجھنے کی بات کچھ یوں ہے کہ چاروں صوبائی اسمبلیاں تو سینٹ انتخابات کا الیکٹورل کالج ہیں ہی کہ چاروں صوبوں کے صوبائی کوٹے سے آنے والے سینیٹرز اپنے اپنے صوبے کی اسمبلی کے ارکان کے ووٹوں ہی سے منتخب ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ فاٹا کے سینیٹرز کا انتخاب، قومی اسمبلی میں موجود فاٹا کے 12 ارکان کریں گے جبکہ اسلام آباد کے سینیٹرز کا انتخاب بشمول فاٹا اراکین پوری قومی اسمبلی کے ارکان کریں گے۔
سینٹ انتخابات میں پولنگ، ووٹنگ اور گنتی کا طریقہ کار
ایوان بالا کی 52 نشستوں پر آج انتخابات کا مرحلہ جاری ہے۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے سینیٹرز کے انتخاب کے لیے پولنگ چاروں متعقلہ صوبائی اسمبلیوں میں جبکہ اسلام آباد اور فاٹا کی نشستوں کیلئے پولنگ قومی اسمبلی میں ہو گی۔ الیکشن قوانین میں طے شدہ فارمولے کے مطابق ایک نشست کے حصول کے لئے لازم قرار پانے والے ووٹوں کی تعداد کے گولڈن فگر کے لئے، متعلقہ صوبائی اسمبلی کے ارکان کی کل تعداد کو مذکورہ صوبے کے حصے میں آنے والی سینیٹ کی موجود خالی نشستوں سے تقسیم کیا جائے گا۔
پنجاب اسمبلی کے ارکان کی کل تعداد 371 ہے۔ پنجاب سے سینیٹ کی 7 خالی جنرل نشستوں پر انتخاب ہورہے ہیں۔ ارکان کی کل تعداد 371 کو خالی نشستوں کی تعداد 7 سے تقسیم کیا جائے تو ہر امیدوار کیلئے مطلوبہ ووٹوں کی تعداد یعنی گولڈن فگر 53 بنتی ہے۔ یعنی پنجاب سے ایک جنرل نشست حاصل کرنے کے لئے امیدوار کو 53 ووٹ حاصل کرنا ہوں گے۔
ٹینکنو کریٹ، خواتین اور اقلیتی نشستیں، جن پر متعلقہ صوبے میں انتخاب ہونے جارہے ہیں کو 371 نشستوں پر تقسیم کرنے سے ہر نشست کے لئے گولڈن فگر یا مطلوبہ ووٹوں کی تعداد معلوم کی جاسکتی ہے۔ مثلا پنجاب میں خواتین کی 2 نشستوں کو کل ارکان 371 پر تقسیم کیا جائے تو مطلوبہ ووٹوں کی تعداد یعنی گولڈن فگر 186 بنتی ہے۔ یعنی پنجاب سے خواتین کی ایک نشست حاصل کرنے کے لئے امیدوار کو 186 ووٹ حاصل کرنا ہوں گے۔
یہاں اہم بات یہ ہے کہ گولڈن فگر حاصل نہ کرنے کی صورت میں کسی بھی نشست پر انتخاب لڑنے والا امیدوار ، اس نشست کے تمام امیدواروں میں سب سے زیادہ ترجیحی ووٹ حاصل کرنے کی صورت میں بھی کامیاب قرار پائے گا۔ دوسری صورت میں گولڈن فگر سے زائد حاصل کئے گئے ووٹ، اس سے اگلے ترجیحی امیدوار کو منتقل ہوجائیں گے اور ایسے ہی یہ سلسلہ آگے بڑھتا جائے گا۔ ووٹوں کے اس انتقال کے باعث سینٹ انتخابات کو منتقل شدہ ووٹوں کا انتخاب بھی کہا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر پنجاب سے سینٹ کی 7 جنرل نشستوں پر اگر 20 امیدوار حصہ لے رہے ہیں تو پنجاب اسمبلی کے تمام ارکان کو ایک ایسا بیلٹ پیپر دیا جائے گا جس پر تمام 20 امیدواروں کے نام بغیر انتخابی نشان کے درج ہوں گے۔ ووٹ دینے والے ارکان پنجاب اسمبلی بیلیٹ پیپر پر تمام امیدواروں کے نام کے آگے 1 ے 20 تک کا ترجیحی ہندسہ درج کریں گے اس طرح سب سے زیادہ ترجیحی ووٹ یعنی 1 کا ہندسہ حاصل کرنے والا امیدوار سینیٹر منتخب ہوجائے گا۔
اگر وہ امیدوار مقررہ گولڈ فگر یعنی 53 سے زائد مرتبہ 1 کا ہندسہ حاصل کرتا ہے تو تمام اضافی 1 یعنی اضافی ووٹ دوسری ترجیح حاصل کرنے والے امیدوار کو منتقل ہو جائیں گے اور یوں یہ عمل 7 سینیٹرز کے انتخاب تک دہرایا جائے گا۔ اس میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی ووٹر یعنی رکن صوبائی اسمبلی 1 سے 20 تک ترجیحی ہندسہ درج کرتے ہوئے کوئی ایک ہندسہ بھول جائے یعنی 9 کے بعد 10 کی ترجیح لگانے کی بجائے کسی امیدوار کے سامنے 11 کی ترجیح لگادے تو اس کے 9 ووٹ گنے جائیں گے جب کہ 9 کے بعد 20 تک کے سارے ترجیحی ووٹ کینسل شمار ہوں گے۔
سینٹ انتخاب کے اسی طے شدہ فارمولے کے تحت، جنرل نشتوں کے انتخابات میں، سندھ اسمبلی سے 24 ووٹ لینے والے امیدوار کو کامیاب تصور کیا جائے گا۔ خیبر پختونخواہ اسمبلی سے سینٹ کی جنرل نشستوں کے لئے 18 ووٹ اور بلوچستان اسمبلی سے سینٹ کی جنرل نشستوں پر، امیدوار کو کامیابی کے لئے 9 ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔
فاٹا سے سینٹ کی چار نشستوں کے انتخابی عمل میں فاٹا کے 11 ارکان قومی اسمبلی ووٹ دیں گے، فاٹا سے سینیٹ کے ایک کامیاب امیدوار کے لئے 3 ووٹ حاصل کرنا ضروری ہیں۔ اسلام آبا کی2 نشستوں پر ہونے والے سینٹ انتخاب میں پوری قومی اسمبلی ووٹ دے گی۔ اسلام آباد کی جنرل اور ٹیکنوکریٹ کی نشستوں پر ہونے والے انتخاب میں بھی، اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار کامیاب تصور کیا جائے گا۔
یہ تحریر فیاض راجہ کی ہے ‘ اور معلومات عامہ کے فروغ کے جذبے کے تحت ان کے شکریے کے ساتھ شائع کی جارہی ہے