چترال: ملک کے بالائی علاقے چترال میں سیاہ کمان نامی مقامی شوٹنگ کمپٹیشن ہرسال منعقد کیا جاتا ہے، لیکن حکومت کی عدم توجہی کے سبب اب یہ حسین ثقافت دم توڑرہی ہے۔
پانچ سو سال پرانے بندوقوں میں بارود ڈال کر لوہے کے چھرے بطور گولی رکھ کر اسے آگ کے پُلتے سے جلاتے ہوئے نشانہ باز ی کی جاتی ہے اس کھیل کو مقامی زبان میں سیاہ کمان کا مقابلہ کہا جاتا ہے۔جسے انگریزی میں شوٹنگ کمپٹیشن بھی کہتے ہیں۔ سیاہ کمان کا مقابلہ صرف چترال کے بالائی علاقوں میں ہوتا ہے۔
حسین ذرین رضاکارانہ طور پر اس کھیل میں ہر سال حصہ لے رہے ہیں، وہ 2013 میں اس کھیل کا ڈسٹرکٹ ونر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے پاس پرانی تلوار بھی ہے اور جانور کے چمڑے سے بناہواجوتا بھی پاؤں کی زینت ہے یعنی تمام تر لوازمات مکمل ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی خصوصی طور پر وہ سیاہ کمان کے مقابلہ میں حصہ لینے کیلئے چترالی چوغہ بھی پہنتا ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ہمارا اصل ثقافت ہے ہمارے بزرگ جب آج سے پانچ سو سال پہلے شکار کیلئے جایا کرتے تھے تو یہ لباس پہن کر اس بندوق سے شکار کیا کرتے تھے ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس جو بندوق ہے وہ تین سو سال پرانا ہے جو ان کے پر دادا درانی نے بنایا تھا۔ ان کا شکوہ ہے کہ چترال میں فٹ بال، کرکٹ، پولو ، ہاکی کو اہمیت تو دی جاتی ہے جو ملک میں ہر جگہ کھیلا جاتا ہے مگر سیاہ کمان کا مقابلہ صرف اور صرف چترال کی حصوصیت ہے اور صرف یہاں کھیلا جاتا ہے مگر آج تک اس کو سرکار کی طرف سے پذیرا ئی نہیں ملی۔
ان کا کہنا ہے کہ جب شہزادہ سکندر الملک تحصیل ناظم تھے تو انہوں نے مجھے ایوارڈ دیا تھا اور بریگیڈئیر نعیم اقبال جو یہاں چترال سکاؤٹس کے کمانڈنٹ تھے انہوں نے میر ی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے نقد انعام بھی دیا تھا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ سیاہ کمان کے مقابلہ میں حصہ لینے کیلئے یہ روایتی لباس پہنا پڑتا ہے اور اس میں ہوتا یوں ہے کہ اس بندوق میں پہلے لوہے کے چھرے یا گولی نما سکہ ڈالا جاتا ہے اس کے بعد اس میں بارود ڈالا جاتا ہے اور ماچس سے ایک رسی کو جلاکر اس کے مخصوص حصے کے اوپر رکھا جاتا ہے جونہی بارود گرم ہوتا ہے اس میں دھماکہ سا ہوتا ہے اور اس دھماکے سے وہ گولہ باہر کی طرف نکلتا ہے جو سیدھا جاکر اپنے نشانے پر پڑتا ہے اس میں پچاس میٹر اور سو میٹر کے فاصلے تک نشانہ مارا جاتا ہے ۔
غلام نبی جو بونی آوی لشٹ کا باشندہ ہے اس کا کہنا ہے کہ اس سیاہ کمان سے ہم نے ماضی میں اپنے ملک کا دفاع کیا ہے مگر حکومت پاکستان نے پچھلے چالیس سال سے اس پر پابندی لگادی ہے جو ہم نے رضاکارانہ طور پر جمع کی مگر اس کے بدلے ہمیں کوئی مراعات نہیں ملی۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے آباو اجداء نے اسی سیاہ کمان سے سکردو کو بھی فتح کیا ہے اور ریاست چترال کی طرف سے ارندو کے مقام پر افغان فورس کا مقابلہ کیا ہے ۔شاہ سلیم اوربدخشاں سے آئے ہوئے فوجیوں کا مقابلہ اسی سیاہ کمان سے کیا گیا ہے اور اسی طرح بروغل میں واخان اور تاجکستان وغیرہ سے آنے والے حملہ آوروں کو اس کی مدد سے پسپا کیا ہے۔
عبد الباقی کی عمر 70 سال ہے جو پچھلے چالیس سالوں سے سیاہ کمان کے مقابلہ میں حصہ لے رہے ہیں اور اس کھیل کو فروغ دے رہے ہیں ۔ ان کھلاڑیوں کا شکوہ ہے کہ پہلے جب چترال کے انتظامیہ کے پاس کچھ بھی نہیں تھا وہ رضاکارانہ طورپر اس کھیل کو یہاں آکر کھیلتے اور اس مقابلہ میں حصہ لیتے ہوئے سیاحوں کو محظوظ کراتے ۔مگر اس سال انتظامیہ کے پاس کافی فنڈ آیا ہوا ہے مگر اس کے باوجود بھی نہ تو ان کی کوئی حوصلہ افزائی کی گئی نہ کوئی نقد انعام دیا گیا اور نہ ہی ان کے ساتھ مالی مدد کی گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بندوق کی دیکھ بال بھی نہایت مشکل ہے مگر حکومت کی طر ف سے اس کی مرمت کیلئے بھی ان کو کوئی فنڈ نہیں دی جاتی۔ سیاہ کمان چترال کا نہایت مقبول اور پسندیدہ کھیل ہے جو اب حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے آہستہ آہستہ ناپید ہوتا جارہا ہے اور مستقبل میں اس کے قصے صرف کتابوں میں ملیں گے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں