10 نومبر معروف اردو شاعر جناب بے خود بدایونی کا یومِ وفات ہے۔
بیٹھتا ہے ہمیشہ رِندوں میں
کہیں زاہد ولی نہ ہو جائے
بے خود بدایونی کا اصل نام محمد عبد الحئی صدیقی تھا۔ آپ 17 ستمبر 1857ء کو بدایوں کے ایک صوفی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُس زمانے کے رواج کے مطابق بے خود نے پہلے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد آپ نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور وکیل کی حیثیت سے مراد آباد اور شاہجہان پور میں کام کیا۔ پھر وکالت سے اکتا کر سرکاری نوکری سے وابستہ ہوئے اور سروہی (راجستھان) اور جودھپور میں خدمات انجام دیتے رہے۔
بے خود بدایونی انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی ابتداء کے ممتاز شعراء میں شامل ہیں۔ انہوں نے شاعری میں پہلے الطاف حسین حالی، پھر داغ دہلوی کی شاگردی اختیار کی۔ اپنی زندگی کا زیادہ حصہ جودھپور میں بسر کرنے کے باعث وہ اردو ادب کے مراکز دہلی اور لکھنؤ سے دور رہے، اور غالباً اسی وجہ سے انکی شاعری بہت عام نہ ہو سکی۔ طویل عرصے تک طبع نہ ہونے کی باعث انکے بہت سے اشعار کو مختلف شعراء نے اپنی تخلیق کے طور پر پیش کیا، اور ان کے بہت سے کلام کو بے خود دہلوی اور کچھ اور شعراء کے کلام سے بھی منسوب کیا گیا۔
بے خود بدایونی غزلیات، حمد و نعت اور رباعیات کے شاعر تھے۔ محبت، فلسفہ، تصوف اور اسلام انکی شاعری کا موضوع تھا۔ اُن کی چار کتب "ہوش و خرد کی دکان”، "صبر و شکیب کی لُوٹ”، "مرآۃ الخیال” اور "افسانۂ بے خود” کے نام سے شائع ہوئیں۔
10 نومبر 1912ء کو بے خود کا بدایوں میں انتقال ہوا اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔
پردے سے پُچھتے ہو ترا دل کہاں ہے اب
پہلو میں میرے آؤ تو کہدوں یہاں ہے اب