جمعہ, نومبر 1, 2024
اشتہار

’کاش میرا دل ان کے دل جیسا ہوتا‘ غزہ سے واپسی پر امریکی نرس کا سی این این کو دل دہلا دینے والا انٹرویو

اشتہار

حیرت انگیز

دنیا کے سب سے بڑے محصور شہر غزہ میں صہیونی بربریت کے ہاتھوں انسانیت مٹتی جا رہی ہے، اور دنیا بھر کے لوگ رنگ و نسل، اور مذہب سے مبرا ہو کر اس پر چیخ اٹھے ہیں، ایک امریکی نرس نے بھی غزہ میں خدمات انجام دینے کے بعد واپسی پر اپنا دل کھول کر رکھ دیا ہے۔

لہو لہو فسلطینی شہر غزہ میں ’ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ کے تحت کام کرنے والی ایک نرس ایملی کالہان نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو انٹرویو میں منگل کو کہا ’’ان کا دل ابھی بھی غزہ ہی میں ہے، غزہ کے شہری بہترین لوگ ہیں۔‘‘

غزہ پر اسرائیلی وحشیانہ بمباری نے امریکی نرس کو جذباتی کر دیا، غزہ کے لوگوں کی بہادری اور بلند حوصلوں پر بولیں کہ کاش ان کا دل بھی غزہ کے لوگوں کے دل جیسا ہوتا۔

- Advertisement -

گزشتہ ہفتے امریکا لوٹنے والی نرس نے کہا ’’اپنی جان کی پروا کیے بغیر طبی عملہ غزہ میں رکا ہے، اور میرا دل ابھی بھی غزہ میں ہے، غزہ کے شہری بہترین لوگ ہیں، کاش میرا دل بھی ان کے دل جیسا ہوتا۔‘‘ انھوں نے کہا کہ جو طبی عملہ غزہ میں رہ گیا ہے اسے معلوم ہے کہ اسرائیلی حملوں کے سبب ان کی جانوں کو بھی خطرہ ہے، لیکن پھر بھی انھوں نے غزہ میں رہنے کو ترجیح دی۔

امریکی نرس ایملی نے تقریباً ایک ماہ تک غزہ میں کام کیا، انھوں نے انٹرویو میں ان خوفناک حالات کے بارے میں بات کی جس میں فلسطینی شہری زندگی گزار رہے ہیں۔ انھوں نے کہا ’’مجھے واضح طور پر راحت کا احساس ہے کہ میں گھر ہوں اور میں اپنے خاندان کے ساتھ ہوں اور 26 دنوں میں پہلی بار خود کو محفوظ محسوس کر رہی ہوں۔ لیکن میں اس بات میں کوئی خوشی محسوس نہیں کر رہی ہوں، کیوں کہ میرا محفوظ رہنا لوگوں کو پیچھے چھوڑ آنے کا نتیجہ ہے۔‘‘

فلسطینی بچوں نے دنیا تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے پریس کانفرنس کر ڈالی

ایملی کالہان نے بتایا کہ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ جنوب میں ایک پناہ گزین کیمپ میں منتقل ہوئی، اس کیمپ میں 35,000 بے گھر لوگ مقیم تھے اور اب اس کیمپ میں 50,000 لوگ پناہ لینے پر مجبور ہیں، یہاں وسائل کی اتنی کمی تھی کہ لوگوں کو ہر 12 میں سے صرف 2 گھنٹے پانی تک رسائی حاصل تھی۔ ایملی نے کہا اسپتال بھرے ہوئے تھے اور لوگوں کو علاج کے فوراً بعد ڈسچارج کرنا پڑتا تھا، اس لیے لوگ بالخصوص بچے بغیر صحت یاب ہوئے، جلنے اور دیگر تازہ زخموں کے ساتھ کیمپ میں ادھر ادھر گھومتے دکھائی دیتے تھے۔

ایملی نے اپنے فلسطینی ساتھیوں کی بے مثال قربانی کے حوالے سے کہا کہ اگر وہ نہ ہوتے تو ہم ایک ہفتے کے اندر مر جاتے، ایملی نے کہا فلسطینی ساتھیوں نے غیر ملکی ڈاکٹروں اور نرسوں کے زندہ رہنے کے لیے بڑی قربانیاں دیں، سپلائی ختم ہونے پر ہمارے لیے خوراک اور پانی تلاش کر کے دیتے تھے اور انخلا کے وقت بسوں پر محفوظ لے جانے کے لیے جانیں خطرے میں ڈالتے تھے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں