اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے صحافی کے منی بجٹ سے متعلق سوال کا جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ خاطر جمع رکھیں اللہ خیر کرے گا۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اسلام آباد لٹریچر فیسٹول سے خطاب میں کہا کہ ملک میں میکرو اکنامک استحکام آ چکا ہے، گزشتہ 12 سے 14 ماہ میں بہت بہتری آئی ہے، کرنسی مستحکم اور زرمبادلہ ذخائر میں استحکام آیا ہے، مارچ یا جون تک زرمبادلہ ذخائر 3 ماہ کی درآمدات کے مساوی ہو جائیں گے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ ملک میں مہنگائی میں کمی ہوئی ہے جس کا فائدہ عام آدمی کو پہنچنا چاہیے، عالمی مارکیٹ میں چکن کی قیمتوں میں 14 فیصد کمی اور پاکستان میں 15 فیصد اضافہ ہوا، حکومت نے ایک ارب ڈالر قرضہ واپس کیا لیکن زرمبادلہ ذخائر پھر بھی بہتر ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ قرض معاہدے میں کوئی چیز خفیہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی 9 سے 10 فیصد پائیدار نہیں ہے، ٹیکس اصلاحات لانی ہوں گی اسٹرکچرل اصلاحات ضروری ہیں، عطیات سے ملک نہیں چل سکتے ملک چلانے کیلیے نجی شعبے کو آگے آنا چاہیے، ایف بی آر کی بطور ادارہ ساکھ اور اعتماد بحال کرنی ہے، اینڈ ٹو اینڈ ڈیجیٹلائزیشن کیلیے ٹیکنالوجی پر فوکس ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بطور تنخواہ دار میں بھی بغیر ایڈوائزر کے ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کر سکتا، ڈیجیٹلائزیشن میں آگے بڑھ رہے ہیں لیکج بند کریں گے، ری فنڈز میں رشوت اور کرپشن والا کام بند کرنا ہوگا، کاروباری طبقہ اسپیڈمنی سے اجتناب کرے۔
’ڈپازٹ اور رول اوور کرنے کیلیے اب کوئی تیار نہیں ہے۔ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت دوست ممالک سے سرمایہ کاری کیلیے کوشاں ہیں۔ چین کے ساتھ سی پیک فیز ون انفرااسٹرکچر کی تعمیر کیلیے تھا۔ سی پیک کا فیز ٹو بزنس ٹو بزنس ہے اب سب کچھ بی ٹو بی سطح پر ہوگا۔ وزیر اعظم شہباز شریف براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کیلیے بہت کلیئر ہیں۔‘
وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں نجی شعبے کو آگے آنا چاہیے، پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ اتنا آسان نہیں ورنہ 10 سال پہلے یہ کام ہو چکا ہوتا، سرکاری اداروں کی نجکاری کے کئی طریقے ہیں، آؤٹ سورسنگ اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ بھی ایک طریقہ ہے، اگلے سال یورو بانڈ کے اجرا کا پلان ہے پانڈا بانڈ کیلیے بھی بات کر رہے ہیں۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح 2.55 فیصد ہے، پاکستان میں آبادی میں تیز اضافے کا بم پھٹ چکا ہے، 240 ملین کی آبادی کے ساتھ ہمیں اتنی مشکل پیش آ رہی ہے، آبادی 400 سے 450 ملین تک پہنچ گئی تو پھر کیا ہوگا؟
انہوں نے کہا کہ ٹیکس ریونیو آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ ہے اس کے علاوہ بھی بہت کام کرنے ہیں، صوبوں میں زرعی ٹیکس لگنا ہے جس کیلیے قانون سازی کی جائے گی، قومی فسکل پیکٹ کیلیے 30 ستمبر کا ہدف تھا تعاون پر صوبوں کا مشکور ہوں۔