زخمی ہوں میں اُس ناوکِ دزدیدہ نظر سے
جانے کا نہیں چور مرے زخمِ جگر سے
ہم خوب ہیں واقف تری اندازِ کمر سے
یہ تار نکلتا ہے کوئی دل کے گہر سے
گر اب کے پھرے جیتے وہ کعبہ کے سفر سے
تو جانو پھرے شیخ جی اللہ کے گھر سے
سرمایۂ امید ہے کیا پاس ہمارے
اک آہ بھی سینے میں سو ناامّیدِ اثر سے
وہ خُلق سے پیش آتے ہیں جو فیض رساں ہیں
ہے شاخِ ثمردار میں گُل پہلے ثمر سے
حاضر ہیں مرے توسنِ وحشت کے جلو میں
باندھے ہوئے کہسار بھی دامن کو کمر سے
فریاد ستم کش ہے وہ شمشیرِ کشیدہ
جس کا نہ رُکے وار فلک کی بھی سپر سے
اشکوں میں بہے جاتے ہیں ہم جانبِ دریا
مقصودِ زہِ کعبہ ہے دریا کے سفر سے
اُف گرمیِ وحشت کہ مری ٹھوکروں ہی میں
پتھر ہیں پہاڑوں کے اُڑے جاتے شرر سے
کچھ رحمتِ باری سے نہیں دور کہ ساقی
رو دیں جو ذرا مست تو مے ابر سے برسے
کُشتہ ہوں میں کس چشمِ سیہ مست کا یارب
ٹپکے ہے جو مستی مری تُربت کے شجر سے
کھُلتا نہیں دل بند ہی رہتا ہے ہمیشہ
کیا جانیں کہ آ جائے ہے تو اس میں کدھر سے
نالوں کے اثر سے مرے پھوڑا سا ہے پکتا
کیوں ریم سدا نکلے نہ آہن کے جگر سے
اے ذوق کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے
***********