سندھ کے دیہی علاقوں میں ہندو لڑکیوں کی مسلمان لڑکوں سے پیار کی شادیاں ہمیشہ جبر اورتضادات کی صورت میں نمودار ہوتی ہیں کیونکہ زیادہ تر شادیوں میں ایک جانب مذہبی عالم اور پنڈت کود پڑتے ہیں تو دوسری جانب سول سوسائٹی کی دکانیں کُھل جاتی ہیں اور پھر محبت کے شادی کرنے والا مسلمان لڑکا اور ہندو لڑکی زندگی بھر محبت کو بھول جاتے ہیں۔
چند روز قبل ایک خوشگوار واقعہ پیش آیا جس میں محبت اور انسانیت جیت گئی اور دھرم ہار گیا۔ میرپورخاص کے ہندو سماجی کارکن ڈاکٹر گوردھن نے ایک انوکھی مثال قائم کی اور اپنے ہاتھوں سے اپنی بیٹی منیشا کو اس کے پریمی مسلمان نوجوان بلال قائم خانی کے سپرد کیا اور اپنے گھر پر مولوی بلاکر نکاح کروا دیا۔
میرپور خاص کی منیشا کماری اور بلال قائم خانی کی پریم کہانی کے بارے میں منیشا کے والدین با خبر تھے، محبت کی ابتدا تب سے ہوئی جب منیشا کی عمر اٹھارہ برس سے بھی کم تھی لیکن ڈاکٹرگوردھن کھتری نے انسانیت کو ترجیح دی اور اپنی بیٹی کو صبر کی تلقین کی اورپھر وہ لمحہ بھی گیا جب بلال قائم خانی کی بارات ہندو ڈاکٹر گوردھن کے گھر پہنچی۔
مسلم عقائد کے مطابق شادی کی رسومات ہوئیں اور بلال قائم خانی اپنی دلہن منیشا کو میرپور خاص سے اپنے آبائی گاﺅں ہتھونگو لے گئے۔ دیہی ماحول میں جوڑے کا شانداراستقبال کیا گیا اور پھر ردعمل میں کھتری برادری کی پنچائیت نے ڈاکٹر گوردھن کو برادری سے نکال دیا اور اس کے خاندان کا سماجی بائیکاٹ کر دیا۔
ڈاکٹر گوردھن کہتے ہیں کہ اس نے دھرم کے بجائے انسانیت کو ترجیح دی اس کی بیٹی اگر مسلمان لڑکے کو چاہ رہی تھی وہ شادی چاہتی تھی مسلمان ہوناچاہتی تھی تو وہ کون ہوتا ہے کہ رکاوٹ بنے۔
ڈاکٹر گوردھن کا کہتا ہے کہ وہ پنچایت اور دھرم سے زیادہ انسانیت کو عظیم سمجھتا ہے۔ منیشا کماری اب منیشا بلال ہوگئی اورشادی کے بعد میکے بھی آگئی، جہاں منیشا اور بلال پر پھول نچھاور کئے گئے۔ منیشا اور بلال دونوں بہت خوش ہیں۔
سندھ کے دیہات میں ہندو خاندانوں کے سماجی مسائل اور نفسیاتی پیچیدگیاں اپنی جگہ پر اورہندو لڑکیوں کی جبری شادیاں بھی ایک بھیانک پہلو ہے۔ لیکن سندھ کے مشہور سیاسی خاندانوں کے گھروں میں بیک وقت ہندو اور مسلمان دونوں بستے ہیں۔
سندھ کے سابق وزیر اعلیٰٰ ارباب غلام رحیم کی والدہ ہندو تھیں، ارباب توگاچی کی اہلیہ سابق ایم پی اے رام سنگھ سوڈھو کی بہن تھی اس طرح رام سنگھ سوڈھو ارباب غلام رحیم کے ماموں ہیں۔
سندھ کے اور بھی کئی خاندانوں میں ایسی مثالیں موجود ہیں لیکن ہندو لڑکیوں کی مسلمان لڑکے سے شادی کے وقت سب سے پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا کوئی مسلمان لڑکی ہندو لڑکے سے شادی کر سکتی ہے اور سندھ کی تاریخ میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں لیکن ڈاکٹر گوردھن کھتری نے انوکھی تاریخ رقم کردی ہے۔
تصیح: سوشل میڈیا اور مقامی اخبارات کے حوالے سے اس اسٹوری میں پہلے شائع شدہ تصویر متعلقہ شخصیت کی نہیں تھی۔ بعد ازاں اس غیر ارادی سہو کی تصیح کرتے ہوئے اس تصویر کو ہٹا دیا گیا ہے۔ اس سہو سے کسی کو کوئی آزار پہنچا ہوتو ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔