12.5 C
Dublin
ہفتہ, مئی 18, 2024
اشتہار

احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت پیر تک ملتوی

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی، وکیل صفائی نے احتساب عدالت کے اس سوال پر کہ ’سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا نواز شریف صادق و امین نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف کو ہم کیسے سچا مان لیں؟‘ عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔

تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کی۔

سماعت کے آغاز پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ صادق اور امین والے معاملے پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ جس بنیاد پر نواز شریف کو نااہل کیا اس کا عدالت سے تعلق نہیں، سپریم کورٹ نے نااہل کیا اور کرمنل کارروائی کا حکم دیا۔

- Advertisement -

خواجہ حارث نے کہا کہ فلیگ شپ کی فرد جرم میں کہا گیا کہ بیٹوں کے نام پر بے نامی جائیداد بنائی، فلیگ شپ سرمایہ کاری کے وقت حسن اور حسین نواز بالغ تھے۔ فرد جرم میں کہا گیا حسن نواز 1989 سے 1994 تک زیر کفالت تھے۔

انہوں نے کہا کہ لکھا ہے 1995 سے 1999 تک حسن نواز کے ذرائع آمدن نہیں تھے۔ فرد جرم بھی نہیں کہہ رہی کہ حسن نواز 1994 کے بعد والد کے زیر کفالت تھے۔ کمپنیوں کے قیام اور نواز شریف کے منسلک ہونے میں 5 سال کا فرق ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ شواہد میں ایسا کچھ نہیں کہ نواز شریف کا تعلق ملازمت سے زیادہ ہو، صرف تفتیشی افسر نے کہا کہ نواز شریف مالک تھے۔

خواجہ حارث نے فلیگ شپ ریفرنس کے 3 نکات پر العزیزیہ ریفرنس میں بھی اصرار کیا۔ انہوں نے کہا کہ بے نامی دار، جے آی ٹی اور ایم ایل اے سے متعلق دلائل وہی رہیں گے۔ عدالت العزیزیہ ریفرنس میں دیے گئے دلائل کو فلیگ شپ کا حصہ بنالے۔

سماعت کے دوران حسن نواز کی برطانیہ میں جائیداد سے متعلق نئی دستاویزات پیش کی گئیں۔ خواجہ حارث نے 3 کمپنیوں کی دستاویزات عدالت کو دکھائیں۔ نواز شریف نے دستاویزات کے لیے برطانوی لینڈ رجسٹری کو درخواست دی تھی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ حسن نواز کا کاروبار ہی یہ تھا جائیداد خریدنا اور فروخت کرنا۔ عدالت نے ریفرنسز کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

اس سے قبل گزشتہ روز کی سماعت میں جج نے خواجہ حارث سے سوال کیا تھا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا نواز شریف صادق و امین نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف کو ہم کیسے سچا مان لیں؟

العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کے وکیل نے اپنے حتمی دلائل مکمل کرلیے تھے جس کے بعد نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے جواب الجواب جمع کروایا تھا۔

سردار مظفر کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور ان کے وکیل کا موقف مختلف ہے، نواز شریف نے حسن اور حسین کی پیش دستاویز کو تسلیم کیا۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) میں حسن، حسین کی پیش دستاویزات کو انڈورس کیا۔ عدالت نے نواز شریف سے ان دستاویزات کے حوالے سے سوال کیا۔

انہوں نے کہا کہ استغاثہ نے عدالت کو مطمئن کرنا ہوتا ہے، استغاثہ نے کیس اسٹیبلش کرنا ہوتا ہے پھر بار ثبوت ملزمان پر ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ثابت کیا نواز شریف کے بیٹے بے نامی دار کے طور پر جائیداد کے مالک ہیں۔ نواز شریف جائیداد کے اصل بے نامی مالک ہیں، استغاثہ نےثابت کیا۔

نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اثاثوں کی ملکیت کو دوسری جانب سے کبھی بھی رد نہیں کیا گیا۔ ملکیت ثابت ہونے کے بعد ملزم نے اپنی بے گناہی ثابت کرنی ہوتی ہے۔ وکیل نے دلائل میں کہا کہ 1980 کے معاہدے، خطوط اور دستاویز پر انحصار نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ ملزم نے اپنے بیان میں تمام باتوں کو تسلیم کیا، بیانات میں تضاد ہے۔ عدالت میں ثبوت نہیں دیا گیا کہ بچوں نے جائیداد اپنے ذرائع سے لی۔ ہم نے ثابت کیا بچے اپنا کوئی ذرائع آمدن نہیں رکھتے تھے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں