جمعہ, مئی 24, 2024
اشتہار

سُرور: ایک نکتہ شناس، سر بَر آوردہ نقاد

اشتہار

حیرت انگیز

سُرور صاحب کی علمی و ادبی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔ آلِ احمد سُرور ایک نکتہ شناس، بلند فکر کے حامل نثر نگار، شاعر، سوانح نگار، صحافی اور قابل استاد بھی تھے۔ اردو زبان میں تنقید کے میدان میں انھوں نے نئے چراغ روشن کیے اور اپنی تحریروں سے اردو زبان و ادب کو مالا مال کیا۔

آلِ احمد سرور نے ترقّی پسند تحریک، حلقۂ اربابِ ذوق اور ادب میں جدیدیت کو رنگ جماتے دیکھا اور اس کا اثر بھی قبول کیا، لیکن کسی ایک تحریک سے بندھے نہیں رہے۔ تقسیم ہند کے بعد انھوں نے بھارت ہی میں رہنا پسند کیا اور وہیں وفات پائی۔ دنیائے شعر و ادب میں سُرور اپنے وسیع مطالعہ کے ساتھ تجزیاتی فکر اور منفرد طرزِ تحریر کے سبب بلند مقام رکھتے ہیں۔

انھوں نے تنقید کے میدان خاص مقام بنایا اور برصغیر کے عظیم شعرا میر، غالب اور اقبال پر خوب کام کیا۔ آج آلِ احمد سرور کی برسی ہے۔ ان کا تعلق بدایوں سے تھا۔ ایک انٹرویو میں آلِ احمد سرور نے اپنے وطن کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ :

- Advertisement -

"شاید یہ بات تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ میرا آبائی وطن بدایوں ہے۔ بدایوں ایک تاریخی شہر ہے اور وہاں کے کھنڈر اور ٹوٹی پھوٹی حویلیاں اب بھی اُس کی گزشتہ عظمت کی یاد دلاتی ہیں۔ یہ بستی قدیم زمانے سے علماء و فضلا، شعرا اور صوفیائے کرام کا مرکز رہی ہے۔ میرے بچپن کا زمانہ وہیں گذرا میں نے جب آنکھ کھولی تو گھر گھر شعر و شاعری کا چرچا تھا۔ آئے دن مشاعرے ہوتے جس میں باہر سے مشہور شعرا شریک ہونے کے لیے آتے اور بدایوں کے چھوٹے بڑے سبھی اپنا کلام سناتے۔ وہاں بزرگوں کے مزار بڑی کثرت سے ہیں۔ جن کے عرس بڑی دھوم دھام سے منائے جاتے ہیں۔ بدایوں کی تہذیبی و سماجی زندگی میں ان کی بڑی اہمیت ہے۔ اس موقع پر کھیل تماشے اور میلے ٹھیلے کے علاوہ مشاعروں کا بھی رواج تھا۔”

پروفیسر صاحب کی تاریخ‌ِ پیدائش 9 ستمبر 1911ء ہے۔ 1928ء میں ہائی اسکول پاس کیا اور سینٹ جانس کالج آگرہ سے بی ایس سی کی سند لے کر 1932ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کیا۔ 1936 میں اسی جامعہ سے اردو میں ایم اے کیا۔ 1938ء میں شعبۂ اردو میں لیکچرر ہوگئے۔ 1946 سے 1955 تک لکھنؤ یونیورسٹی میں تدریس سے منسلک رہے اور پھر علی گڑھ میں صدرِ شعبہ ہوئے۔

لکھنؤ میں اپنے قیام کے دوران آل احمد سرور ترقی پسند تحریک سے قریب ہوئے اور انجمن کے جلسوں میں شرکت کی، لیکن کبھی نظریاتی جبر کا شکار نہیں رہے۔ ان کی ترقی پسند فکر ہمیشہ انسان دوستی کی علم بردار رہی۔ سرمایہ داری اور رجعت پسندی کے مخالف سُرور نے ادب میں اس ہنگامی اور انقلابی تصور کا ساتھ نہیں دیا جس کا پرچار اس وقت جوشیلے نوجوان کر رہے تھے۔

سُرور کا شمار ان اہلِ قلم میں ہوتا ہے جو مغربی اور مشرقی ادب کے مطالعے کے بعد تنقید کے میدان میں اترے تھے۔ اسی وصف کی بنیاد پر ان کی تنقید میں مغرب سے استفادہ اور مشرقی رچاؤ بھی نظر آتا ہے۔

بطور شاعر سُرور کو دیکھا جائے تو ہم ان کی غزلوں اور نظموں میں فکر انگیزی، کلاسیکی رچاؤ اور تازہ کاری محسوس کرتے ہیں۔

آل احمد سرور کی تنقیدی اور شعری کاوشیں کتابی شکل میں ’نئے اور پرانے نظریے‘، ’تنقید کیا ہے‘، ’ادب اور نظریہ‘، ’مسرت سے بصیرت تک‘ ،’اقبال کا نظریہ اور شاعری‘ ’ذوقِ جنوں‘ (شاعری) ’خواب باقی ہیں‘(خودنوشت) کے نام سے شایع ہوئیں۔

وہ دلّی میں مقیم تھے اور وہیں 9 فروری 2002ء کو انتقال کیا۔ آلِ احمد سُرور کو پدما بھوشن اور ساہتیا اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں