اشتہار

امانت لکھنوی: سبز پری اور شہزادہ گلفام کا قصّہ گو

اشتہار

حیرت انگیز

ہندوستان میں نکڑ ناٹک اور تھیٹر کا ایک مقصد اصلاحِ معاشرہ بھی تھا اور یہی کھیل تماشے کسی دور میں عوام کی تفریح کا واحد ذریعہ تھے۔ اسی زمانے میں امانت لکھنوی نے ڈرامہ ‘اندر سبھا” لکھ کر شہرت پائی۔ آج امانت لکھنوی کا یومِ وفات ہے جن کے ڈرامے کو اردو کا اوّلین ناٹک کہا جاتا ہے۔

تھیٹر کا سلسلہ اس دور میں‌ انگریزوں نے شروع کیا تھا جو پہلے نوابوں، امراء کا شوق بنا اور پھر عام ہندوستانی بھی اس سے محظوظ ہونے لگے۔ مشہور ہے کہ امانت لکھنوی نے اندر سبھا، اودھ کے نواب واجد علی شاہ کی فرمائش پر 1853ء میں تحریر کیا تھا۔ یہ اردو کا ایک مقبول ناٹک تھا جو اس زمانے کے رواج کے مطابق سیدھا سادہ اور منظوم ہے۔ امانت لکھنوی جن کا نام اردو کے پہلے عوامی ڈرامہ کے مصنّف کے طور پر ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا، شاعر بھی تھے۔ انھوں نے غزل اور دوسری اصناف سخن بالخصوص واسوخت اور مرثیہ میں طبع آزمائی کی، لیکن ان کی وجہِ شہرت ڈرامہ اندر سبھا ہی ہے۔

امانت لکھنوی کا اصل نام آغا حسن تھا۔ ان کے اجداد ایران سے لکھنؤ آئے تھے۔ امانت 1825ء میں ہندوستان کے مشہور شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور تحصیلِ علم کے شوق کے ساتھ اپنے زمانے کے مروجہ علوم میں استعداد بڑھائی، لیکن نوجوانی میں‌ ایک بیماری کی وجہ سے ان کی زبان بند ہو گئی تھی۔ بعد میں‌ قوتِ گویائی واپس آ گئی، لیکن زبان میں لکنت برقرار رہی۔

- Advertisement -

امانت لکھنوی نوعمری میں شاعری کا شوق رکھتے تھے اور میاں دلگیر کے شاگرد بنے۔ استاد نے امانت تخلص تجویز کیا۔ ان کا ایک دیوان "خزائنُ الفصاحت” بھی موجود ہے۔ تذکروں میں آیا ہے کہ شاعری میں امانت نے اپنے عہد کے مقبولِ عام اور پسندیدہ انداز کو اپنایا۔

امانت کا ڈرامہ اردو کا وہ پہلا عوامی ڈرامہ تھا جو چھپنے سے پہلے ہندوستان بھر میں مقبول ہوا اور اشاعت کے بعد دور در تک اس کی شہرت پھیل گئی۔ اس کے کئی نسخے شہروں شہروں کتب خانوں کی زینت بنے اور جب بمبئی میں تھیٹر کمپنیوں نے اپنا کاروبار شروع کیا تو اندر سبھا کو بار بار اسٹیج کیا گیا۔ اس کی طرز پر بے شمار ڈرامے اردو میں لکھے گئے۔

اردو کے اس اوّلین ناٹک کا پلاٹ اور اس کے کرداروں کو ایک نظر میں‌ دیکھا جائے تو یہ راجہ اندر، اس کے دربار کی رقاصہ سبز پری اور شہزادہ گلفام کی بڑی دل چسپ اور نہایت پُراثر کہانی ہے۔ سبز پری ہندوستان کے شہزادے گلفام پر فریفتہ ہو جاتی ہے اور کالے دیو کے ذریعے ملاقات کا پیغام دیتی ہے، اس کے اظہارِ محبت پر شہزادہ شرط یہ رکھتا ہے کہ وہ اسے راجہ اندر کے دربار کی سیر کرائے۔ سیر کے دوران دونوں پکڑے جاتے ہیں۔ شہزادے کو قید کر لیا جاتا ہے اور پری کو جلا وطن۔پھر پری شہزادے کو قید سے نکالنے اور اسے اپنانے کی خاطر بڑے جتن کرتی ہے۔ یہ منظوم ڈراما 830 اشعار پر محیط ہے جس کے آٹھ کردار ہیں۔

انیسویں صدی کے آخر میں اردو تھیٹر نے فروغ پایا تو اس زمانے میں‌ اردو ڈرامے بھی لکھے گئے جس میں آغا حشر کاشمیری کا نام سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انھوں نے بیسویں صدی کے آغاز میں اردو ڈرامے کو ایک نیا موڑ دیا اور اسے فنی خصوصیات کا حامل بنایا۔ لیکن اندر سبھا کی اہمیت اور مقبولیت ہمیشہ قائم رہی۔ اردو کے ابتدائی دور اور بعد میں آنے والوں نے اسے بہترین ڈرامہ اور لازوال منظوم قصّہ کہا ہے۔ عبد الحلیم شرر کے بقول اندر سبھا کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ہندو مسلمانوں کے علمی، تمدنی مذاقوں کے باہمی میل جول کی اس سے بہتر یادگار نہیں ہو سکتی۔ زبان و بیان کی بنیاد پر جائزہ لیں تو اندر سبھا میں ایسے اشعار بہ کثرت ملیں گے جن میں الفاظ اور بندش کی چستی، استعارے، تشبیہات اور تخیل عروج پر ہے۔

اردو ادب میں جب بھی ڈرامہ کی ابتدا اور اس کے ارتقا کی بات ہوگی اندر سبھا اور امانت کا تذکرہ ضرور ہوگا۔ امانت لکھنوی نے کم عمر پائی اور 3 جنوری 1859ء
کو جوانی میں انتقال کیا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں