کراچی: معروف قوال امجد صابری کی شہادت کو وقت گزرنے جانے باجود اُن کے پڑھے گئے کلام کی عوام میں پذیرائی تاحال برقرار ہے اور وہ آج بھی عوام کے دلوں پر راج کررہے ہیں۔
شہر قائد کے علاقے لیاقت آباد نمبر 10 پر 22 جون کو دہشت گردوں کے ہاتھوں نشانہ بننے والے فرید صابری کے صاحب زادے امجد صابری کی شہادت کو گزرے 4 ماہ گزر گئے تاہم وہ آج بھی اپنے پڑھے گئے کلاموں کے باعث ہمارے درمیان موجود ہیں۔
گزشتہ دنوں عائشہ منزل پر بیٹھک کے دوران ایک 12 سالہ فریادی ہاتھ میں اسپیکر پکڑے پاس آیا اور پیسوں کا سوال کیا تاہم اس بچے کے سوال کے ساتھ ہی میں نے کئی سوالات پوچھ ڈالے۔
پیسے مانگنے والے بچے نے سوالات کے جواب میں اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ ’’میرا نام محمد علی اور عمر 12 سال ہے‘‘۔ پیسے مانگنے کے حوالے سے جب اُس سے سوال کیا تو اُس نے کہا کہ ’’امجد صابری کا کلام پڑھتا ہوں اور جن لوگوں کو پسند آتا ہے وہ پیسے دے دیتے ہیں‘‘۔
پڑھیں: فرزند امجد صابری اور دو بھائی قوال گھرانے کے جانشین مقرر
چونکہ ہم دو بھائی ہیں اس لیے میں دوپہر کو گھر سے پیسے کمانے کی غرض سے نکلتا ہوں تاکہ گھر میں موجود 3 بہنوں اور والدہ اور بیمار والد سمیت گھر کے کرائے کے لیے پیسے جمع کرسکوں۔
مزید پڑھیں: کراچی کے نوجوان مصوروں کا امجد صابری کو خراج عقیدت
روزانہ حاصل کی گئی رقم کے حوالے سے محمد علی کا کہنا تھا کہ ’’یہ قسمت پر منحصر ہے کبھی 1000 روپے جمع ہوجاتے ہیں تو کبھی صرف 100 روپے ہی جمع ہوپاتے ہیں تاہم روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 300 سے 500 روپے تک جمع ہوجاتے ہیں۔
تعلیم کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں 12 سالہ بچے نے کہا کہ ’’اسکول جانے کا بہت دل چاہتا ہے تاہم اگر اسکول جانا شروع کردوں گا تو گھر کا ماہانہ کرایہ اور اخراجات کون برداشت کرے گا مگر انشاء اللہ جلد صبح میں مدرسے جانے کا سلسلہ شروع کروں گا‘‘۔
یہ بھی پڑھیں: منفرد انداز کے مالک امجد فرید صابری کی روح پَرور مشہور قوالیاں
Yes Shaheed is always Alive #AmjadSabri dua on street Mohd Ali 12 Years Old Recite Dua.#ShaheedAmjadSabri pic.twitter.com/lh7UeEqVjB
— محمد عمیر دبیر (@UmairDabeer) October 10, 2016
ایک ہی مقام پر تین بار کلام پیش کرنے کے بعد محمد علی نے پیسے اکٹھے کیے اور دیگر مانگنے والے دو بچوں میں بھی 10 ، 10 روپے تقسیم کیے اور اجازت طلب کر کے چلتا بنا تاہم اس کے جاتے ہی ایک بات ذہن میں آئی وہ یہ کہ ’’امجد صابری‘‘ آج بھی ہم میں موجود ہے۔