خیبر پختونخواہ اسمبلی کی پشاور کی دیہی علاقے کی نشست پی کے آٹھ پر انتخابی معرکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار ارباب وسیم حیات کی غیر متوقع جیت کے غیر سرکاری اعلان سے اپنے اختتام کو پہنچا۔ یہ نشست مسلم لیگ ن کے ممبرصوبائی اسمبلی ارباب اکبر حیات کی اچانک فوتگی کے باعث خالی ہوئی تھی اوراس نشست پر جتینے والے ارباب وسیم ، ارباب اکبر حیات مرحوم کے بھائی ہیں۔
پشاور کی گیارہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں یہ واحد تھی جو 2013کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن نے 13528 ووٹ کے ساتھ جیتی تھی جبکہ 10458ووت کے ساتھ جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان دوسری،9335ووٹ کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف تیسری اور 8324ووت کے ساتھ پیپلز پارٹی چھوتے نمبر پرتھی اور اس مرتبہ ضمنی انتخاباب میں مسلم لیگ ن نے 11781ووٹوں سے کامیابی حاصل کی جبکہ 10789لے کر پیپلز پارٹی دوسرے، 9347ووٹ کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف تیسرے اور 9308ووٹون کے ساتھ جمعیت علماٗ اسلام چوتھی پوزیشن حاصل کی ۔
یہ تقابلی جائزہ اس لئے ضروری تھا کہ قارئین اس حلقے کی حالیہ انتخابی تاریخ سے آگاہ ہوسکے لیکن ان سب سے ہٹ کر یہ الیکشن ایک ایسے وقت ہورہا تھا جب ملک میں پانامہ پیپرز کا چرچہ جاری ہے اور وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کی آف شور کمپنیوں کے منظر عام پر آنے پر اپوزیشن جماعتوں نے شاہی خاندان کے خلاف ایک مہم شروع کی ہوئی ہے جس میں وزیراعظم سے ایک مطالبہ یہ بھی کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے عہدے سے ان پر لگائے گئے الزامات کی تحقیات تک الگ ہوجائے ۔
یہی وجہ تھی کہ مسلم لیگ نے بھر پور کوشش کی وہ یہ نشست جیت کر ثابت کرسکے کہ عوام کی اکثریت اپوزیشن خصوصا تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کی حکومت مخالف مہم پر کان نہں دھر رہے ۔ مسلم لیگ نے اپنی سیٹ پر جیت کو یقینی بنانے کی غرض سے اپنے اہم رہنما جن میں کچھ اعلیٰ منصب پر فائز تھے ان کو ذمہ داری سونپی ہوئی تھی ۔ اسکی ایک جھلک ڈسٹرکٹ ریٹرنگ افیسر کے وزیراعظم کے مشیر امیر مقام کی پی کے آٹھ میں انتخابات سے قبل سرگرمیوں کے نوٹس سے بھی عیاں ہوتی ہے ۔ ان پر اعتراض تھا کہ انہوں نے حلقے کے لئے بجلی کے منصوبوں اور لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 22گھنٹوں سے کم کرواکے چھ گھنٹے کروائے تھے ۔ اور جب الیکشن کے نتیجہ کا اعلان کیا جارہاتھا تو میڈیا کے نمائندوں کو ووٹوں کی تفصیلات گورنر ہاوس کے ترجمان کی جانب سے جاری کئے گئے ۔ کیونکہ گورنر ہاؤس میں موجود گورنر انجنئیر اقبال ظفر جھگڑا جو کہ مسلم لیگ نواز کے مرکزی جنرل سیکرٹری رہ چکے ہیں ۔ اس وقت زمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں ۔
وفاقی حکومت کے لئے اس الیکشن کی جیت اس لئے بھی ضروری تھی کیونکہ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور عمران خان اپنے جلسوں میں پنجاب اور وفاقی حکومت پر مختلف نوعیت کے الزام لگاکر یہ ثابت کرتے ہیں کہ دونوں حکومتوں عوام کا اعتماد کھو چکی ہے لیکن جب تحریک انصاف یہ الیکشن ہار جاتی ہے تو اسکے خلاف مسلم لیگ ن کو بھر پور مہم کا موقع مل جائے گا اور وہ ہی ہوا ۔جوہی الیکشن کا نتیجہ سامنے آیا وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور دیگر ہنماؤں نے دل بھر کر اپنی بھڑاس نکالنا شروع کردی ۔
دوسری طرف تحریک انصاف جو پہلے ہی خیبر پختونخواہ کے ضلع ہری پور کے ضنمی انتخابات میں مسلم لیگ نواز کے ہاتھوں قومی اسمبلی کی نشست پر ہار کا کڑوا گھونٹ پی چکی تھی اس نشسست پر کامیابی کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے چاہتی تھی جس کے لئے عمران خان نے اس حلقے میں انتخابات سے تین روز قبل جلسہ بھی کیا ، جس کا ڈسٹرکٹ ریٹرنگ افیسر نے نوٹس بھی لیا اور بنوں میں بھی بھر پور عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا ۔ لیکن یہ تمام کوششیں کامیاب نہ ہوسکی ۔ گوکہ تحریک انصاف کے اس حلقے میں ووٹ بنک پر اثر تو نہیں پڑا لیکن عمران خان کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی حکومت کی کارکردگی کا بغور جائزہ لے کیونکہ وہ جب بنوں میں عوام سے اپنی حکومت کی کارکردگی کی بابت سوال کررہے تھے تو وہاں ان کو تسلی بخش جواب نہ مل سکا جس کو انہوں نے خود بھی محسوس کیا ۔
ان انتخابات میں حیران کن صورتحال اس وقت بھی دیکھنے کو ملی کہ جب پیپلز پارٹی کا امیدوار حلقے کے 98 میں 92نشستوں پر نشستوں پر برتری حاصل کئے ہوئے تھا اور جب رزلٹ سامنے آیا تو مسلم لیگ کا امیدوار کامیاب قرار پایا ۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو کا ٹویٹ بھی قابل غور ہے جس میں انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اپوزیشن کے احتجاج کے پس منظر میں انکی پارٹی کی جیت کو ہار میں تبدیل کیا گیا ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ وفاق میں حکمران جماعت کس حد تک اس کامیابی کو اپنے خلاف مہم کو کمزور کرنے کے لئے استعمال کرتی ہے ۔