عیدالفطرکی چھٹیاں ختم ہوچکی تھیں اور ہم نےطے کیا ہوا تھا کہ ٹھنڈے سیاحتی مرکزکی سیر کے لئے چھٹیوں کے بعد نکلیں گے کیونکہ ہمیں علم تھا کہ رمضان المبارک کے اختتام اورعید الفطر کی شروعات کے ساتھ ہی ملکی سیاح بڑی تعداد میں گرمی کی شدت سے کچھ دنوں کے لئے بچنے کی غرض سے پہاڑی علاقوں پر جب پہنچیں گے تو جہاں ٹریفک بدانتظامی کی باعث ایک گھنٹہ کا سفرپانچ گھنٹوں میں طے ہوگا وہی مہنگائی کا جن بھی بے قابو ہوگا۔ عید کے ایک ہفتے بعد جب ہم نے طے کیا کہ اس مرتبہ وادی ناران کی طرف جایا جائے تو ہمارے خیر خواہ زارا عالم اور ظہور درانی نے مشورہ دیا کہ ناران بازار میں ہوٹل میں قیام کی بجائے بازار سے تقریبا پندرہ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع بٹا کنڈی کے مقام پر موجود گیسٹ ہاوس میں قیام ہونا چاہیے اوراس کے لئے انہوں نے بکنگ کا بھی بندوبست کرلیا تھا اورواقعی ہم جب بٹا کنڈی پہنچے تو پرسکون ہونے کے علاوہ یہ مقام انتہائی پر فضا بھی تھا۔ ایک جانب دریائے کنہارکا منظر، اس میں گرتا آبشاراورساتھ ہی بے پناہ خوبصورتی کی حامل لالہ زاروادی۔
یہ خبربھی پڑھیں: سیف الملوک – جہاں پریاں اترتی ہیں
یہاں ہم نے رہائش اختیار کی اورصبح سطح سمندر سے 16384فٹ بلندی پرواقع بابو سر ٹاپ کے لئے روانہ ہوگئے۔ ہمارے پاس تو ذاتی جیپ تھی لیکن ہمیں بتایا گیا کہ جو افراد مقامی جیپ استعمال کرتے ہیں تو ان کوناران سے بابو سر ٹاپ کے 75 کلومیٹر فاصلے کے دو اطراف کے لیے آٹھ سے دس ہزار روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ بہرحال ہم بٹا کنڈی سے صبح آٹھ بجے روانہ ہوئے۔ بیشتر راستہ پختہ، ایک طرف قراقرم کا پہاڑی سلسلہ اوردوسری جانب دریائے کنہار کے دلکش مناظر، سرسبز آلو اورمٹر کے کھیت اوران میں بہتے جھرنے ایک لمحے کے لئے بھی تھکاوٹ کا احساس پیدا نہیں کرتے۔
وادی ناران سطح سمندر سے تقریبا 8500 فٹ بلند اور بابوسرٹاپ کی بلندی جیسا کہ پہلا تحریر کیا جاچکا ہے16384 ہے تو بلندی کی طرف جاتے ہوئے ہرموڑ پر خوبصورت نطارے جہاں آپکی توجہ بٹنے نہیں دیتی وہی راستے میں سطح سمندر سے 11200 فٹ بلند لولوسرجھیل کی سحرانگیزی اورجادوئی کشش آپ کو اپنی جانب کھینچنے لگتی ہے۔
چونکہ ہم بابو سر ٹاپ کی طرف رواں دواں ہیں اس لیے اس جھیل کی خوبصورتی کو بیان کرنے کے لئے علحیدہ مضمون تحریرکرنے کا ارادہ ہے۔ تقریبا دو گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد جب خیبر پختونخواہ کی سرحد کو عبورکرکے گلگت بلتستان میں داخل ہوئی توبابوسر ٹاپ کے دلفریب مناظر ایک عجیب اور خوشگوار سماں پیش کرتے آپ کو خوش امدید کہہ رہے ہوتے ہیں اوریہی وہ لمحہ ہے جب بے اختیار یہ کہنا پڑتا ہے کہ واقعی قدرتی حسن سے مالا مال پاکستان میں بابو سر ٹاپ کو قدرت نے اپنے تمام ترحسن ودولت سے نوازا ہے، یہاں پرجولائی کے مہینے میں بھی پہاڑوں پرسفید برف ایک ایسا منظر پیش کرتی ہے جیساکہ کوئی پریوں کے دیس میں آنکلاہو۔
اس پہاڑی چوٹی کو کراس کرنے کے بعد چلاس اورگلگت کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے بابو سرٹاپ پرجہاں کراچی، لاہور، فیصل آباد، پشاور، کوئٹہ، ملتان اور ملک کے دیگر شہروں کے افراد اپنی فیملی کے ساتھ نظر آتے ہیں، وہیں ہماری ملاقات اسٹریلیا سے آئے ہوئے دو موٹر سائیکل سواروں سے ہوئی گوکہ وہاں بے شمار ملکی موٹرسائیکلسٹ بھی پہنچے ہوئے تھے۔
آسٹریلوی موٹر سائیکلسٹ نے بتایا کہ وہ اسلام اباد سے براستہ گلگت یہاں پہنچے ہیں اوریہی سے واپس جارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس علاقے کی خوبصورتی سے بے پناہ متاثرہوئے ہیں۔ بابوسرٹاپ پرپانی کی شدید قلت محسوس کی گئی جبکہ یہاں سیاحوں کے لئے کوئی خاص انتظام بھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ یہاں مقامی انتطامیہ کے ایک اہلکار سے بھی ملاقات ہوئی جن کا کہنا تھا کہ بابو سرٹاپ کا راستہ مئی سے اکتوبرتک کھلا رہتا ہے، کیونکہ سردی میں شدید برف باری کا باعث یہ راستہ اکثر بند ہوجاتا ہے اوراگرکھل بھی جائے تو پھسلن کے باعث ٹریفک کا چلنا محال ہوتا ہے۔
انہوں نے سیاحوں سے اپیل کی وہ یہاں آنے کے لئے ہر لحاط سے بہترگا ڑی کا انتخاب کریں کیونکہ اگر یہاں گاڑی خراب ہوجائے تو مکینک کی سہولت موجود نہیں ہے ۔ یہیں موجود کراچی کے ایک رہائشی جمشید احمد نے اس خطہ زمیں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے ملک کے جغرافیہ، موسم اور قدرتی حسن پرفخر کرنا چاہیے کیونکہ ہمارا ملک ایسے خطے میں موجود ہے جہاں اگرکوئی جہاز کا خرچہ اٹھا سکتا ہے تو کراچی سے بابو سر ٹاپ براستہ اسلام اباد ائیر پورٹ آٹھ گھنٹوں میں پہنچ سکتا ہے اورلاہور سے براستہ سڑک یہاں تقریبا بارہ گھنٹوں میں پہنچ سکتا ہے اگرراستہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ بابوسرٹاپ پرمقا می افراد نے ڈھابہ ہوٹل قائم کیے ہوئے ہیں جن ٕمیں چائے ، آلو پکوڑہ، سیخ تکہ اورسافٹ ڈرنکس ملتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کوایک دورمیں سیاحت کے میدان میں اہم ترین مقام حاصل تھا لیکن دہشت گردی کی لہر نے اس پوزیشن کو بھی متاثر کیا لیکن اب ضرب عضب اپریشن کے بعد حالات بہتر ہورہے ہیں تو مقامی اور وفاقی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان علاقوں میں سیاحوں کی بہتری کے لئے اقدامات اٹھانے چاہے تاکہ جہاں متوسط طبقہ اس حسن کا نظارہ کرسکے وہی غیر ملکی سیاحوں کی آمد کا سلسلہ بھی دوبارہ شروع ہو، جس سے مقامی روزگار میں بھی اضافہ ہوگا اور ملک کو زرمبادلہ بھی میسر آئے گا اورسیاحت کو فروغ دینے سے ملک کا امیج بھی بہترہوگا۔