تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

میٹھی عید سے جڑے بلوچستان کے میٹھے رسم ورواج

پاکستان کے دیگرعلاقوں کی طرح بلوچستان کے باسی بھی عیدالفطر کو میٹھی عید کے نام سے پکارتے ہیں، اس عید کو محبتوں کی مٹھاس کے علاوہ اس عید سے جُڑی میٹھی سوغاتوں کی بدولت اس کو میٹھی عید کا نام دیا گیا ہے۔ بلوچستان میں میٹھی عید پہ سیویّاں لازم وملزوم ہیں۔ میٹھی عید پر سیویّاں نہ ہوں تو عید ادھوری سمجھی جاتی ہے۔

بلوچستان میں پہلے ہاتھوں سے تھوڑی تھوڑی کر کے سیویّاں تیار کی جاتی تھیں۔ اب مشینی ہاتھوں نے اس کام کو تیز رفتار بنا دیا ہے مگر آج بھی  بلوچستان میں ان مشینی ہاتھوں کا استعمال بہت کم ملتا ہے۔ شاید اس کی وجہ غربت ہے یا صدیوں پرانے رسم و رواج۔

بلوچستان کے دیہات میں یہ رنگ اب بھی دکھائی دیتے ہیں۔ غُربت کے ان رنگوں پر کبھی ہماری نظر بھی جانی چاہیے۔ سِویّاں ہماری اس میٹھی عید کی خاص سوغات میں ایک ہیں۔

کسی زمانے میں ہاتھ کی پتھر والی چکّی بلوچستان میں عام ہوتی تھی۔ اس سے آٹے کو پیسا جاتا تھا اور اس آٹے کو ململ کے دوپٹے سے ایک مٹکے  کے اوپر باندھ دیا جاتا تھا اور پھر نرم نرم ہاتھوں سے چھاناجاتا تھا۔ پانچوں انگلیاں اس کپڑے پہ گھماتے جاتے تھے اور باریک آٹا نیچے مٹکے کی تہہ میں چلا جاتا تھا ۔

اس آٹے کو جمع کرتے کرتے مٹکہ بھر جاتا تو وہ میدہ کی شکل اختیار کر لیتا تھا پھر نرم ملائم ہاتھوں کی اُنگلیوں سے اُس باریک آٹے کو پانی یا گھی میں گوندھ لیا جاتا اور پیڑے بنا کر رکھ لے جاتے تھے۔ یہ پیڑے سخت کیے جاتے تھے اور انہیں سرسوں کے تیل میں ڈبویا جاتا تھا۔

پھرسیویوں والی مشین کو چارپائی کے ایک کونے سے پھنسایا جاتا تھا۔ پھر لڑکے یا لڑکیاں مشین چلانے کے لیے مامور ہو جاتیں اور ہتھی گھمانا شروع کر دیتے تھے۔

ایک خاتون  آٹے کے پیڑوں کو مشین کے منہ میں ڈالتی جاتی، ہتھی گھمانے والے ہتھی گھماتے جاتے تھے اور  زور لگاتے جاتے تھے۔ تھک بھی جاتے تھے مگر ہتھی نہ رکتی جب تک کہ دوسرا سہارا دینے والا نہ ہو۔ مشن سے خوب صورت لچھے نکلتے جاتے۔ ان لچھوں کو آرام کے ساتھ نرم نازک انگلیوں سے کاٹ کر چارپائی پر پڑی سفید چادر پہ رکھا جاتا تھا۔ جب سفید چادر بھر جاتی تو اس پہ لکڑیاں رکھی جاتیں، جس پہ سویاں سج جاتی تھیں۔

یہ سیویاں سورج کی تپش میں سوکھنے لگتی تھیں۔ سویاں جیسے سوکھ جاتی تھیں، تب اس لکڑی کو نکالا جاتا اور سفید کپڑے کے ساتھ ان سویوں کو گھر کی چھت سے باندھ دیا جاتا جن کا استعمال دو سے تین ماہ تک کیا جاتا تھا۔ سویاں جب چھت سے لٹکتی تو بلوچ بچے ہر روز ان کی فرمائش کرتے تھے اور ماں ان کی فرمائش جھٹ سے پورا کر دیتی تھی۔

ان سویوں کو بنانے کے لیے ایک دیگچی میں پانی کو گرم کیا جاتا ہے اور جب پانی ابلنے لگتا ہے تو اس میں سویاں ڈالی جاتی ہے۔ پھر پانی ابلنا بند کر دیتا ہے۔ ٹھیک پانچ منٹ کے بعد دوبارہ سیویاں ابلنے لگتی ہے تو سویوں کو نکالا جاتا ہے اور گرم پانی پھینک کراس میں مکھن یا دیسی گھی ڈالا جاتا ہے اور ساتھ میں مٹھائی (گنے سے نکلنے والی) ڈالی جاتی ہے۔ پھر آؤ دیکھا جاتا ہے نہ تاؤ۔ پیٹ بھر کے خوب لطف لیا جاتا ہے۔

یہ رسم و  رواج صدیوں سے ہمارے گھر میں نہیں پورے بلوچستان میں چلے آ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ زمانے نے بہت ترقی کر لی مگر بلوچستان کی یہ سوغات صدیوں سے جاری و ساری ہیں اور بلوچستان کے لوگ کوشاں ہیں کہ ہماری ثقافت کے یہ خوبصورت رنگ یونہی قائم و دائم رہیں۔


تحریروتصاویر: ببرک کارمل جمالی

Comments

- Advertisement -