اشتہار

بالزاک:‌ وہ ادیب جس کے قلم کی نوک معاشرے کے لیے نشتر ثابت ہوئی

اشتہار

حیرت انگیز

بالزاک شاید دنیا کا وہ واحد مصنّف ہے جس نے اپنے ناولوں میں کئی کردار روشناس کرائے۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کا نام اپنے کام کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے۔ اس کی یہ خواہش پوری ہوئی اور اُسے فرانسیسی ادب کے مقبول ناول نگاروں‌ میں شمار کیا جاتا ہے۔ آج بالزاک کا یومِ وفات ہے۔

اپنی زندگی کے تجربات، سماجی رویّوں اور تبدیلیوں کا گہرا مشاہدہ کرتے ہوئے بالزاک کے اندر لکھنے کا شوق پیدا ہوا جو وقت کے ساتھ بڑھتا چلا گیا اور بالزاک نے ایک حقیقت نگار کے طور پر قلم تھام لیا۔ وہ اُن اہلِ قلم میں سے ایک تھا جنھوں‌ نے یورپی ادب میں حقیقت پسندی کو رواج دیا اور اسی وصف کی بناء پر بالزاک کو فرانس میں بہت پسند کیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر اس کے زورِ‌ قلم نے اپنے وقت کے مشاہیر کو اپنی جانب متوجہ کیا جن میں چارلس ڈکنز، ایملی زولا، گستاف فلابیر، ہینری جیمس کے نام شامل ہیں جب کہ فرانس کے عظیم فلم ساز فرانسوا تروفو اور فلم ڈائریکٹر و ناقد ژاک ریوت بالزاک سے بہت متأثر تھے۔ بالزاک کی تخلیقات کو فلمی پردے کے لیے ڈھالا گیا اور اس کی بدولت ادب اور فلم کی دنیا میں بالزاک کے پیش رو بھی اس سے بہت متأثر نظر آئے۔

ہنری ڈی بالزاک نے 1799ء میں پیرس کے قریب ایک گاؤں میں آنکھ کھولی تھی۔ اس کا باپ سرکاری ملازم تھا۔ تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد بالزاک نے پیرس کا رخ کیا اور وہاں‌ ایک وکیل کے ہاں بطور منشی ملازمت اختیار کرلی۔ بالزاک شروع ہی سے صحّت کے مسائل سے دوچار رہا اور ممکن ہے اسی باعث وہ حساس اور مضطرب ہوگیا اور اپنے انہی مسائل کے ساتھ وہ مطالعے کا عادی بنا اور پھر لکھنے کا آغاز کر دیا۔ بالزاک نے کہانیاں، ناول اور مختلف موضوعات پر مضامین بھی سپردِ قلم کیے جنھیں قارئین نے بے حد سراہا۔

- Advertisement -

وکیل کے پاس اپنی ملازمت کے دوران بالزاک مسلسل لکھتا رہا۔ معاش کی فکر اور روزگار کی تلاش اسے پبلشنگ اور پرنٹنگ کے کام کی طرف بھی لے گئی، لیکن مالی آسودگی بالزاک کا مقدر نہیں‌ بنی۔ تب، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ قلم کی مزدوری کرے گا اور نام و مقام بنائے گا۔ اس نے یہی کیا اور قسمت نے بالزاک کا ساتھ نبھایا۔

یہاں ہم بالزاک کے تخلیقی سفر سے متعلق ایک نہایت دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں جو مختلف ادبی تذکروں میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ کہتے ہیں‌ کہ بالزاک کی بہن کی شادی تھی اور ایک روز جب تمام رشتے دار گھر میں موجود تھے، بالزاک نے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی اور اپنا لکھا ہوا پہلا ڈرامہ پڑھ کر سنانے لگا۔ پورا ڈرامہ سنانے کے بعد بالزاک نے جب داد طلب نظروں سے حاضرین کی طرف دیکھا تو سب نے یک زبان ہوکر کہا، "یہ بالکل بکواس ہے۔” لیکن نوجوان بالزاک نے ان کے اس تبصرے کو اہمیت نہ دی اور لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ پھر وہ دن دن بھی آیا جب فرانس اور بعد میں‌ بالزاک کو دنیا بھر میں ایک ناول نگار اور ڈرامہ نویس کے طور پر شہرت ملی۔

اس فرانسیسی مصنّف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہمیشہ ایک نوٹ بک اور پنسل اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ وہ فرانس کی تاریخ، اور مقامی سطح پر ہونے والی ہر قسم کی اہم سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں کو قلم بند کرنا چاہتا تھا اور جہاں بھی جاتا، بالخصوص فرانس کے مختلف علاقوں کے کوچہ و بازار، محلّوں اور شہروں کی سڑکوں کی تفصیل نوٹ کرتا رہتا تھا، فرصت ملنے پر وہ ان مشاہدات کے مطابق کردار اور ان پر کہانیاں تخلیق کرتا۔ وہ اکثر سڑکوں اور میدانوں میں‌ درختوں اور کیاریوں کا جائے وقوع لکھ لیتا تھا اور اپنے ناول یا ڈرامے میں انہی درختوں کے درمیان اپنے کردار دکھاتا جس سے وہ حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتیں۔

بالزاک نے ٹھان لی تھی کہ ہر سال کم از کم دو ضخیم ناول، درجنوں کہانیاں اور ڈرامے ضرور لکھے گا اور اس نے یہ کیا بھی۔ فرانس کے مصنّف نے کئی شاہکار کہانیاں تخلیق کیں، اور 97 ناول لکھے۔ بوڑھا گوریو بالزاک کا وہ مقبول ناول ہے جس کا اردو زبان میں بھی ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح یوجین گرینڈ بھی فرانس میں محبّت کی ایک لازوال داستان ہے جس میں ایک لڑکی اپنے کزن کی محبّت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ ہنری ڈی بالزاک نے یہ ناول انقلابِ فرانس کے بعد اس معاشرے میں‌ جنم لینے والے نئے رحجانات کے پس منظر میں تخلیق کیا ہے۔ ”تاریک راہوں کے مسافر“ میں بالزاک کی کردار نگاری عروج پر ہے جب کہ جزئیات نگاری کی وجہ سے بھی اسے بہت سراہا جاتا ہے۔

فرانسیسی ادیب بالزاک کی ایک انفرادیت اس کے لمبے فقرے ہیں اور اس کے بیان کردہ منظر میں بہت تفصیل موجود ہوتی ہے۔ بالزاک کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ شروع ہی سے انفرادیت کا قائل تھا اور اپنے احباب سے کہتا تھاکہ میں‌ قلم سے وہ کام لوں گا کہ لوگ مجھے فراموش نہیں کرسکیں گے۔ بلاشبہ بالزاک نے اپنے زورِ قلم کو منوایا اور فرانسیسی معاشرے کا گویا پوسٹ مارٹم کر کے رکھ دیا۔ اس تخلیق کردہ کردار آج بھی فرانس ہی نہیں ہمارے معاشرے میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

بالزاک کا ایک ادبی کارنامہ اور وجہِ شہرت وہ تخلیقات ہیں‌ جو بعنوان ہیومن کامیڈین شایع ہوئیں۔ اس میں بالزاک نے فرانس کے ہر شعبہ ہائے حیات اور ہر مقام سے کردار منتخب کرکے کہانیاں تخلیق کیں، اس کے ناول فرانس میں‌ تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کے ساتھ انفرادی آداب، عادات، لوگوں‌ کے رجحانات، ان کی رسومات اور جذبات کی مؤثر ترجمانی کرتے ہیں۔

بالزاک نے 18 اگست 1850ء کو پیرس میں وفات پائی، اسے دنیا سے گزرے ایک صدی اور کئی دہائیاں بیت چکی ہیں، لیکن ایک حقیقت نگار کے طور پر آج بھی اس کا نام زندہ ہے۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں