اسلام آباد: سپریم کورٹ نے اڈیالہ جیل میں قید بانی پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کیخلاف سائفر کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
تحریری فیصلے میں جسٹس اطہر من اللہ کا اضافی نوٹ شامل ہیں جس میں ان کا کہنا تھا کہ درخواست گزار معاشرے کے خلاف جرم میں ملوث نہیں، ملزمان کی گرفتاری کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا، پورا ٹرائل دستاویزات شواہد پر منحصر ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ملزمان کی انتخابات کے دوران رہائی اصلی انتخابات کو یقینی بنائے گی، کیس میں ایسے حالات نہیں کہ ضمانت کو مسترد کیا جائے، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی ایسے الزامات میں قید نہیں جو معاشرے کیلیے خطرہ ہوں۔
متعلقہ: ’سابق وزیر اعظم پر جرم ثابت نہیں ہوا، وہ معصوم ہیں‘
نوٹ میں لکھا گیا کہ ایک وزیر اعظم کو پھانسی تک دے دی گئی، آئین توڑنے والے ڈکٹیٹر نے ایک دن بھی قید نہیں کاٹی، انتخابی عمل میں حصہ لینا خود ضمانت کی ایک بنیاد ہے، انتخابی عمل میں حصے کو ضمانت کی بنیاد بطور اصول لاگو ہونی چاہیے، تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں اور مقدمے کی سماعت جاری ہے۔
سپریم کورٹ کے جج نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو قید کرنے سے کوئی مفید مقصد حاصل نہیں ہوگا، انتخابات میں ان کی ضمانت پر رہائی حقیقی انتخابات کو یقینی بنائے گی، دونوں کی رہائی لوگوں کو مؤثر اور بامعنیٰ طور پر حق رائے دہی کے قابل بنائے گی۔
انہوں نے لکھا کہ تقریباً تمام منتخب وزرائے اعظم وقت سے پہلے ہٹائے جانے کے بعد قید رہے، وزرائے اعظم کو نااہل قرار دے دیا گیا اور سیاسی مخالفین کو اختلاف رائے پر ستایا گیا، 2018 الیکشن ایک سیاسی جماعت کے ساتھ غیر مساوی سلوک کی مثال تھے۔
متعلقہ: سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور
جسٹس اطہر من اللہ کے مطابق عوام کی خواہش کا اظہار انتخابی عمل سے ہی ممکن ہے، عوام کا حق رائے دہی استعمال کرنا آئینی حق ہے، ہر سیاسی جماعت کے امیدوار کو بلا خوف و خطر یکساں مواقع ملنے چاہییں، اصل انتخابات وہی ہیں جس میں ووٹر آزادانہ حق رائے دہی استعمال کر سکے۔
اضافی نوٹ کے مطابق سیاسی رائے کی بنیاد پر اصل انتخابات پر سمجھوتا کرنے پر انتخابات کا درجہ گر جاتا ہے، ہر امیدوار اور سیاسی جماعت کا حق ہے وہ بشمول میڈیا شہریوں تک پہنچ سکے۔