اسلام آباد: عالمی مالیاتی اداروں سے لیےگئے قرض کی تفصیلات سینیٹ میں پیش کر دی گئیں۔
تفصیلات کے مطابق وزارت خزانہ نے سینیٹ میں بتایا کہ عالمی بینک سے 21 اداروں کے لیے 4 ارب 11 کروڑ 10 لاکھ ڈالر قرض لیا گیا ہے، ایشیائی ترقیاتی بینک سے 3 ارب 66 کروڑ ڈالر قرض لیا گیا۔
اسلامی ترقیاتی بینک سے ایک ارب 68 کروڑ ڈالر قرض لیا گیا، جب کہ ایشین انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ ڈویلپمنٹ بینک سے 80 کروڑ ڈالر قرض لیا گیا۔
وزارت خزانہ کے مطابق حکومت نے ورلڈ بینک سے 21، ایشیائی ترقیاتی بینک سے 22 معاہدے کیے، سرکاری اداروں میں اصلاحات کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے 58 معاہدے کیے۔
وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف سے لیےگئے قرض پر 4.05 شرح سود ہے، قرض کی واپسی کا عمل 2024 سےشروع ہوگا اور 2032 تک جاری رہےگا۔
نج کاری فہرست
نج کاری کی فہرست میں شامل 19 اداروں کی فہرست بھی سینیٹ میں پیش کر دی گئی، پی آئی اے کا روز ویلٹ ہوٹل نیویارک نج کاری کی فہرست میں شامل ہے، بلوکی پاور پلانٹ، حویلی بہادر شاہ پلانٹ، ایس ایم ای بینک بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
نج کاری فہرست میں فرسٹ ویمن بینک، پاکستان اسٹیل، پاکستان انجینئرنگ کمپنی، سروسز انٹرنیشنل ہوٹل، جناح کنونشن سینٹر، ماڑی پیٹرولیم، نندی پور پاور پلانٹ، اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن، او جی ڈی سی ایل، پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ، اور گدو پاور پلانٹ بھی شامل ہیں۔
ادویات کی قیمتوں میں اضافہ
ادویات کی قیمتوں میں اضافے پر توجہ دلاؤ نوٹس بھی سینیٹ میں پیش کیا گیا، سینیٹر مشتاق احمد نے کہا حکومت نے 2 بار ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا، جس سے ہرگھر متاثر ہے، 500 فی صداضافہ کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ یہ اس لیے کیا تاکہ ادویات کی دستیابی یقینی ہو، حکومت نے فارما مافیا کے سامنےگھٹنے ٹیک دیے۔
سینیٹر مشتاق نے کہا 45 فارما کمپنیوں کے سربراہان پی ٹی آئی کے عہدے دارہیں، کیا یہ درست ہے؟ ڈریپ اس وقت فارما مافیا کی سرپرستی کر رہی ہے، ہمارا مطالبہ ہے ادویات کی قیمتیں جون 2018 کی سطح پر لائی جائیں، نیب کو فارما مافیا کی کرپشن نظر نہیں آ رہی۔
کرونا سے ملکی معیشت کو نقصانات
سینیٹ اجلاس میں وقفہ سوالات میں وزارت خزانہ کی جانب سے کرونا سے ملکی معیشت کو نقصانات کی تفصیلات پیش کی گئیں، جس میں کہا گیا کہ کررونا کے باعث جی ڈی پی کی شرح 2 فی صدگرگئی، ایف بی آر کو ٹیکس ریونیو میں 809 ارب روپے کا خسارہ ہوا، جی ڈی پی کی شرح 2.4 فی صد سے کم ہو کر منفی صفر اعشاریہ 4 فی صد تک آ گئی، بجٹ خسارے میں بھی ایک فی صد اضافہ ہوا ، بجٹ خسارہ 7.5 فی صد کی بجائے 8.1 فی صد رہا، پاکستانی برآمدات کے ہدف میں بھی کمی آئی۔