روہن کی پہلی سالگرہ ہمیں دھوم دھام سے منانی چاہئے، کیونکہ روہن ہمارے پیار کی پہلی نشانی ہے۔ سنیتا نے اپنے من میں دبی ہوئی خواہش کا اپنے پریمی شوہر سے کرہی ڈالا تھا، لیکن ڈاکٹر دیپک جانتا تھا کہ پورا سال تو تکالیف اور معاشی تنگ دستی میں گزر گیا،ابھی تو کلینک کی آمدنی بھی بمشکل اتنی ہو رہی تھی کہ گھر کا گذارہ ہو سکے، لیکن ڈاکٹر دیپک نے اپنی پریمکا سنیتا کے گال پر تھپکی دیتے کہا ’’ایسے ہی ہوگا میری جان‘‘۔
کراچی کے علاقے کورنگی میں چھپ کر چوروں کی طرح زندگی بسر کرنے والے ڈاکٹر دیپک اور سنیتا کو یہ شہر بہت مہنگا پڑرہا تھا اور دوسری جانب دونوں سے خاندان نے سماجی بائیکاٹ کر رکھا تھا، کیونکہ خاندان کی نظر میں ڈاکٹر دیپک اور سنیتا کا پریم بندھن خاندان کے ناک کاٹ دینے کے مترادف تھا۔اس لئے خاندان نے اپنی ناک بچاتے ہوئے دونوں سے خاندان کے تمام حقوق چھین لیئے تھے لیکن دیپک اور سنیتا نے پیار کی شادی کرکے کوئی گناہ نہیں کیا تھا لیکن خاندان کی نظر کزن میرج دھرم کے خلاف تصور کیا جاتا تھا۔
ڈھائی سالہ روہن کی پہلی سالگرہ کے بعد کوئی سالگرہ نہیں ہوسکی
اوروہ حالات سے بہت خوفزدہ ہے لیکن سنیتا نے ہمت نہیں ہاری
سندھ کے شہر ٹنڈو الہیار سے تعلق رکھنے والا ڈاکٹر دیپک اور قریبی شہر ٹنڈو غلام علی میں بسنے والی اس کی کزن سنیتا اسکول کے زمانے میں ہی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے، ایک دوسرے کو خط لکھتے تھے اور انہوں نے موبائل فون کے شارٹ میسج سروس ( ایس ایم ایس ) کو لانگ میسج سروس میں تبدیل کردیا تھا۔لیکن جب شادی کی بات نکلی تو خاندان میں طوفان برپا ہوا جس نے دونوں کو چھپ کر شادی کرنے پر مجبور کردیا تھا اور گاؤں چھوڑ کر دونوں کراچی میں کرائے کے گھر میں خوش و خرم رہنے لگے،ان کے پیار کی پہلی نشانی روہن کے جنم کے بعد دونوں بہت ہی خوش تھے۔
بدقسمتی سے خوشی کی یہ گھڑیاں طویل ثابت نہ ہوئی اوروہ بھیانک گھڑی ان کی زندگی میں داخل ہوئی جس نے اس کایا ہی پلٹ دیا اور پندرہ ماہ سے یہ خاندان قانون اور انصاف کی چکی میں ایسے پس رہا ہے کہ دیپک اور سنیتا کو زندگی تو کیا بھگوان پر ہی شک ہونے لگا ہے۔
پندرہ ماہ قبل پولیس پارٹی نے حیدر آباد ہالہ ناکہ کے قریب ایک ایسا کارنامہ سرانجام دیا کہ حیدر آباد کے ایماندار ایس ایس پی کا سر شرم سے جھک جانا چاہئے تھا لیکن ایک غریب ہندو ڈاکٹر سے ڈرامہ رچانے والے پیٹی بھائیوں کو بچانے کے لئے پولیس افسر کی ایمانداری ڈھٹائی میں تبدیل ہوگئی۔ پولیس پارٹی نے گاڑی کو روک کر ڈاکٹر دیپک کو نیچے اتارا، منہ پر کپڑا ڈال کر پولیس موبائل میں ہی خوب دھلائی کی اور پھر تھانے جا کر ہاف فرائی کیا( سندھ میں ہاف فرائی اور فل فرائی جیسی شرمناک ٹرمنالاجی پولیس نے متعارف کرائی ہے ہاتھ،پیر اور ٹانگیں توڑنے کو ہاف فرائی کہتے ہیں ) پولیس نے دیپک کو گولیاں مار کر ایک ٹانگ اور ایک بازو ضائع کردیا،کیونکہ پولیس کو مقابلہ دکھانا تھااور یہ ہی ہوا کہ اخبارات میں بڑے شد و مد سے خبر شایع ہوئی کہ حیدرآباد ہالہ ناکہ کے قریب پولیس مقابلے میں بدنام زمانہ ڈاکو شریف پہنور کو زخمی حالت میں گرفتاری کیا گیا ہے۔
ایمانداری کے عوض حیدر آباد پریس کلب سے اعزاز حاصل کرنے والے ایس ایس پی حیدر آباد عرفان بلوچ نے جعلی مقابلہ کرنے والے ایس ایچ او علی محمد مغل کے خلاف کاروائی کرنے کے بجائے ڈھٹائی کے ساتھ دیپک کو شریف پہنور قرار دے کر سندھ کی سول سوسائٹی کی نظروں میں خود کو گرا دیا۔
پندرہ ماہ گزر جانے کے باوجود پولیس اپنے جھوٹ پر قائم ہے اور ایک ٹانگ سے معذور
ڈاکٹر دیپک کو ہتھکڑی لگا کر جناح ہسپتال کے اسپیشل وارڈ میں بند رکھا ہوا ہے
ڈاکٹر دیپک کی ایک ٹانگ اور ایک بازو کاٹ دیے گئے ہیں اور دیپک کے ساتھ اس کی بیوہ سنیتا اور ڈھائی سالہ بیٹا روہن بھی اسپتال میں قیدی جیسی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ سنیتا نے سندھ ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ جناح اسپتال میں قید ڈاکٹر دیپک سے میں نے پوچھا کہ آخر پولیس کی تم سے کیا دشمنی تھی جو تم پر فائرنگ کی گئی۔؟ ڈاکٹر نے جواب دیا کہ ’’میرے سسرال والوں نے جاسوسی کی تھی، وہ پولیس کے ہاتھوں مجھے ذلیل کروانا چاہتے تھےکیونکہ انہیں ہماری شادی پسند نہیں تھی،پولیس تک غلط اطلاع پہنچائی گئی کہ ڈاکو شریف پہنور جا رہا ہے۔جب مجھے پکڑا گیا تھا تو میں نے کہا کہ میں دیپک ہوں،میں نے اپنا قومی شناختی کارڈ بھی ظاہر کیا لیکن کسی نے ایک بات نہین سنی،مارتے رہے، سڑک کنارے گاڑی روک کر اندھا دھند فائرنگ کی گئی،ٹانگوں سمیت جگہ جگہ پر گولیاں ماری گئیں اور وہ مجھے قتل کر چکے تھے‘‘۔
اس ساری صورتحال کے سبب ڈھائی سالہ روہن کی پہلی سالگرہ کے بعد کوئی بھی سالگرہ نہیں ہوئی اور روہن بہت ہی خوف زدہ نظر آتا ہے لیکن مشکلات جھیلنے والی سنیتا نے با لکل بھی ہمت نہیں ہاری۔ سنیتا کہتی ہے کہ ’’ہمارے ساتھ بہت بڑا ظلم ہوگیا ہے، ہمارا پورا ریکارڈ نادرا سے بھی چیک کیا گیا ہے نادرہ کے ریکارڈ میں بھی ثابت ہوگیا ہے کہ میرا شوہر دیپک ہے اور میں سنیتا ہوں۔ بھگوان نے تو میرے شوہر کو دیپک پیدا کیا لیکن پولیس اب بھی اس کو شریف پہنور کہتی ہے۔ آخر ہم کہان جائیں ہم تو مکمل برباد ہو چکے ہیں در در بھٹک رہی ہوں کہ سچ کو ثابت کرسکوں‘‘۔
سنیتا کہتی ہیں کہ ’’حالات سے تنگ ہوکر میں نے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہے کہ بس یہی آخری سہارا ہے۔ ہماری زندگی میں ایک بہت بڑا طوفان آچکا ہے اور کوئی ہماری مدد کرنے کو تیار نہیں ہے‘‘۔
دیپک اور سنیتا کی درد بھری کہانی تو بڑی طویل ہے اور کربناک و دردناک ہے وہ خود بھی جب اپنی کہانی بیان کرتے ہیں تو آنکھوں سے نکلنے والے موتی گالوں پر ٹپک پڑتے ہیں لیکن سندھ پولیس نے نہ جانے ایسی کتنی داستانیں رقم کرکے نا جانے کتنے بے گناہ لوگوں کو فل فرائی اور ہاف فرائی کا نشانہ بنایا،کیا جمہوری راگ الاپنے والوں کو انسانیت کا یہ درد کہیں نظرآتا ہے۔