عہدِ اکبری ہی میں لکھنؤ شہر میں آباد کاری کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ مغلیہ دور میں جب ایک فرانسیسی تاجر یہاں آیا تو اس نے بادشاہ سے پروانۂ اقامت حاصل کرنے کے بعد یہاں ایک حویلی تعمیر کی جس کا نام فرنگی محل پڑ گیا۔
یہ فرنگی محل لکھنؤ میں وکٹوریہ روڈ اور چوک کے درمیان میں واقع ہے۔ یہ مغل شہنشاہ اورنگزیب کے دورِ حکومت کی بات ہے جب فرانسیسی تاجر یہ شان دار رہائش گاہ ایک شاہی فرمان کے تحت حکومت کی طرف سے ضبط کر لی گئی اور شہنشاہ نے ایک عالمِ دین، ملا سعید کو یہ حویلی سونپ دی۔ انھوں نے بعد میں یہاں ایک مدرسہ قائم کیا جسے بہت شہرت حاصل ہوئی اور اسی مدرسے سے کئی مسلمان عالم فاضل بن کر نکلے اور تحریکِ خلافت اور بعد میں ہندوستان کی آزادی و تقسیم کے لیے جدوجہد اور تحاریک کا حصّہ بنے۔ اس مدرسے کے فارغ التحصیل علمائے فرنگی محل کے نام سے مشہور ہوئے جن کا تذکرہ تاریخ و سیاست کی کتب میں بہت پڑھنے کو ملتا ہے۔ اٹھارویں صدی میں مدرسہ فرنگی محل کو بہت شہرت ملی اور وہاں سے پڑھ کر نکلے والے علمائے کرام نے کئی ریاستوں میں خواص اور عوام کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا۔
فرنگی محل مدرسہ کا موازنہ اکثر انگلینڈ کی عظیم درس گاہوں سے بھی کیا جاتا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ گاندھی جیسے کئی کانگریسی راہ نماؤں نے بھی فرنگی محل میں چند دن گزارے۔ یہ اسلامی اور دینی تشخص رکھنے والی عمارت ہی نہیں تھی بلکہ ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی اور سماجی کردار کو زور اور تحریک دینے میں بھی اس کا کردار اہم تھا مؤرخین نے لکھا ہے کہ فرنگی محل اسلامی ثقافت اور روایات کے تحفظ کی علامت بن گیا تھا۔
گاندھی کے علاوہ تحریکِ آزادی کے دیگر قائدین جن میں سروجنی نائیڈو اور جواہر لعل نہرو بھی شامل ہیں، اس فرنگی محل کا دورہ اور یہاں کے علما سے مشورہ کرنے کے لیے آتے رہے تھے۔ فرنگی محل کے علما خلافتِ تحریک کے زبردست حامی تھے۔ اسی فرنگی محل مدرسہ کے علما نے انگریز حکومت کے خلاف جہاد کا فتوٰی جاری کیا تھا جس کی پاداش میں کئی علما کو پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔