19.6 C
Dublin
پیر, مئی 20, 2024
اشتہار

ڈاکٹر فاطمہ شاہ:‌ بصارت سے محروم ایک قابل پاکستانی

اشتہار

حیرت انگیز

فاطمہ شاہ نے آدھی زندگی تو دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، مگر ایک روز وہ بصارت سے محروم ہوگئیں!

پیدائشی طور پر اندھے پن کا شکار افراد کے مقابلے میں تن درست انسان کا اچانک بینائی سے محروم ہوجانا اس کے لیے کرب ناک حقیقت ہوتا ہے، لیکن ان میں سے بعض لوگ جلد ہی خود کو حالات سے لڑنے کے لیے تیّار کر لیتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ دوسروں کے لیے بھی عزم و ہمّت اور بہادری کی مثال بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر فاطمہ شاہ ایسی ہی نابینا خاتون تھیں جن کی معذوری کے بعد زندگی کسی معجزے سے کم نہیں۔

ڈاکٹر فاطمہ شاہ 1914ء میں پنجاب کے علاوہ بھیرہ میں‌ پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تھا، اور وہ اپنے والدین کی 12 اولادوں‌ میں سے ایک تھیں۔ ان کے والد پروفیسر عبدالمجید قریشی علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبۂ ریاضی کے چیئرمین تھے۔ فاطمہ شاہ کا تعلیمی سفر شان دار رہا، انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے ہائی اسکول کے امتحان میں گولڈ میڈل حاصل کیا اور دہلی کے لیڈی ہارڈنگ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا تو اسکالر شپ مل گئی۔ فاطمہ شاہ نے ڈگری حاصل کرنے کے بعد لکھنؤ کے ڈفرن اسپتال میں ہاؤس سرجن کی ملازمت شروع کی۔1937 میں ان کی شادی گورکھپور ہندوستان کی ایک مشہور شخصیت جواد علی شاہ سے ہو گئی اور تب انھیں اپنی نوکری چھوڑنا پڑی۔ وہ دو بیٹیوں‌ کی ماں تھیں‌۔ ڈاکٹر فاطمہ شاہ تقسیمِ ہند کے دنوں‌ میں پاکستان آئی ہوئی تھیں اور بدقسمتی یہ ہوئی کہ حالات بگڑتے چلے گئے جس کے باعث وہ اپنے گھر واپس نہیں جاسکیں اور یہیں قیام کرنا پڑا۔

- Advertisement -

فاطمہ شاہ نے پاکستان میں ڈاکٹر کی حیثیت سے سول اسپتال میں‌ نوکری کا آغاز کیا اور بعد میں جب وہ بینائی سے محروم ہوگئیں تو نابینا افراد کی مدد اور ان کی دیکھ بھال میں مشغول رہیں۔ اس کے لیے وہ متعدد تنظیموں سے وابستہ ہوئیں، اور مختلف اداروں کی بنیاد رکھی۔

ڈاکٹر فاطمہ شاہ پاکستان میں آزادی کے ابتدائی زمانہ ہی میں‌ ایک رضا کار کی حیثیت سے متحرک ہوگئی تھیں۔ 1947 کے بعد وہ مہاجر خواتین کی صحت اور آباد کاری کے سلسلے میں خدمات انجام دیتی رہیں اور آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن (اپوا) کے بانی اراکین میں سے ایک تھیں۔ فاطمہ شاہ کو ان سماجی خدمات پر ملکہ الزبتھ دوم کی تاج پوشی کے موقع پر ایم بی ای (برطانوی سلطنت کی رکن) کا اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔ سول اسپتال، کراچی میں کافی عرصہ تک کام کرنے والی فاطمہ شاہ کی بینائی 1952 میں اچانک آنکھوں میں الرجی اور موتیا کے باعث متاثر ہوئی اور چند برس میں وہ مکمل طور پر دونوں آنکھوں‌ کی روشنی سے محروم ہو گئیں۔ لیکن انھوں نے ایک باہمّت خاتون ہونے کا ثبوت دیا اور پھر ایک نئے عزم کے ساتھ میدانِ‌ عمل میں‌ اتریں۔

ڈاکٹر فاطمہ شاہ نے 1960 میں پاکستان ایسوسی ایشن آف دی بلائنڈ کی بنیاد بھی رکھی جو ایک قومی سطح‌ کی تحریک ثابت ہوئی جس میں فاطمہ شاہ نے 25 سال تک بحیثیت صدر خدمات انجام دیں۔ وہ پہلی خاتون بھی تھیں‌ جو انٹرنیشنل فیڈریشن آف بلائنڈ کی صدر رہیں۔

ڈاکٹر فاطمہ شاہ کی کوششوں سے پاکستان میں حکومت نے یہ قانون ختم کیا کہ ذہنی صحت، ذہانت اور قابلیت کے باوجود جسمانی معذور لوگوں کو نوکری نہیں دی جاسکتی۔ ڈاکٹر فاطمہ شاہ نے تعلیمی اداروں میں بریل طریقۂ تعلیم متعارف کروانے کی تجویز دی اور اس کا آغاز کروایا۔ ڈاکٹر فاطمہ شاہ پاکستان کی بصارت سے محروم پہلی رکن دستور ساز اسمبلی بھی تھیں۔ تحریکِ آزادی کی عظیم راہ نما بیگم رعنا لیاقت علی خان نے ڈاکٹر فاطمہ شاہ کو ایک کورس کرنے کے لیے امریکہ بھیجا تھا جہاں‌ انھوں نے بصارت سے محروم افراد کی عالمی تنظیم کے ساتھ بھی کام کیا اور وہیں سے واپس آنے کے بعد ڈاکٹر فاطمہ شاہ نے حکومت کو معذور افراد کی نوکری سے متعلق شق ختم کرنے پر مجبور کیا تھا۔

ڈاکٹر فاطمہ شاہ کی زندگی کی کہانی ان کی کتاب میں پڑھی جاسکتی ہے سے 1990 میں انگریزی زبان میں‌ شایع کیا گیا تھا، جب کہ اس کا اردو ترجمہ دھوپ چھاؤں کے نام سے کیا گیا۔ ڈاکٹر شاہ نے معذوری، اپنی مدد آپ اور سماجی تبدیلی کے نام سے بھی ایک کتاب لکھی تھی۔

88 سال کی عمر میں ڈاکٹر فاطمہ شاہ طویل علالت کے بعد 12 اکتوبر 2002ء کو کراچی میں وفات پاگئی تھیں۔ وہ ڈیفنس کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

نابینا افراد کے حوالے سے خدمات انجام دینے پر فاطمہ شاہ کو کئی عالمی سطح‌ کے اعزازات سے نوازا گیا جب کہ حکومت پاکستان نے انھیں‌ تمغائے امتیاز دیا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں