تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

"طالبان کےبیانات حوصلہ افزا ہیں،ایک نئی سوچ کاپتہ چلتاہے”

اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ اب پاکستان پر الزام تراشی کا سلسلہ بند ہونا چاہیئے، پاکستان موجودہ صورتحال میں ایک بااعتمادمصالحت کار ثابت ہوسکتاہے۔

تفصیلات کے مطابق عرب نشریاتی اداراے الجزیرہ کو دئیے گئے مفصل انٹرویو میں وزیر خارجہ نے افغانستان کی موجودہ صورت حال پر کھل کر گفتگو کی اور پاکستانی موقف کو بھرپور انداز میں عالمی دنیا کے سامنے پیش کیا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ کی بھاری قیمت ادا کی، اس جنگ میں ہماری اسی ہزار شہادتیں ہوئیں، ایک سو پچاس بلین سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا، یہی نہیں ہم نے بیس لاکھ آئی ڈی پیز کو سنبھالا، دنیا بھول گئی کہ ہم تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی کرتے چلے آرہے ہیں۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ نائن الیون حملوں کا ذمے دار پاکستان نہیں، قیمتی جانوں کاضیاع ہواا ور ہمیں جواباً’’ڈومور‘‘کا طعنہ دیا جاتا رہا،عالمی برادری سےرابطہ کی کوشش کی توشک کی نگاہ سےدیکھاگیا، طرح طرح کےسوالات اٹھائےگئے۔

الجزیرہ کو دئیے گئے انٹرویو میں وزیر خارجہ نے کہا کہ دنیاکو بتاتےرہے کہ مسلط کی گئی افغان حکومت کو سیاسی حمایت حاصل نہیں، وہاں کرپشن اور ناکام طرز حکمرانی کادور دورہ ہے، مگر کسی نے ہماری بات پر کان نہیں دھرے، ان حالات کےباوجود ہم امن کی کاوشوں میں شراکت داری کےخواہاں ہیں۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سابق افغان صدر کو بین الافغان مذاکرات میں سب سےبڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دوحہ میں ایک سال تک اشرف غنی کی سنی جاتی رہی، مگر سب سے بڑی رکاوٹ بھی وہی تھے، اشرف غنی نےالزام لگایا کہ پاکستان نےدس ہزار لوگوں کو افغانستان بھیجا، مجھےاس طرح کاغیرذمہ دارانہ بیان سن کرانتہائی حیرت ہوئی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کےپاس تین لاکھ تربیت یافتہ فورس موجود تھی، جدید آلات تھے،ہمت نہیں تھی توکیااسکاذمہ داربھی پاکستان ہے؟۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اشرف غنی کی حکومت کی عملداری،محض چندعلاقوں تک محدودتھی، انخلا سے قبل بھی چالیس سے پینتالیس فیصد علاقہ طالبان کےزیرکنٹرول تھا، طالبان نے بلا مزاحمت پیش قدمی کی،انہیں مقامی سپورٹ حاصل تھی۔

الجزیرہ کو دئیے گئے انٹرویو میں وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اچانک انخلا کافیصلہ ہماری رائے لیےبغیر کیا گیا، اب عالمی برادری کو کابل سےاپنےلوگوں کےانخلا کا چیلنج درپیش ہے، ہم اس حوالے سےبھی مثبت اورتعمیری کردارادا کررہےہیں، پاکستانی سفارتخانہ کابل میں چوبیس گھنٹےمتحرک ہے اور مختلف ممالک کےشہریوں کےانخلا میں معاونت کررہاہے۔

شاہ محمود نے کہا کہ افسوس اس بات کاہےکہ ہمارےاس کردارکوبھی نہیں سراہاگیا، پاکستان کا نام انخلا میں معاونت کرنیوالے ممالک میں شامل نہیں کیاگیا، کیا اسے محض بھول چوک سمجھاجائے؟، پاکستان نےبہت الزامات برداشت کر لیے،یہ سلسلہ بندہوناچاہیے، اپنی اندرونی ناکامیوں کی ذمہ داری پاکستان پرہرگز نہ ڈالی جائے۔

وزیرخارجہ کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کےبیانات حوصلہ افزاہیں،ایک نئی سوچ کاپتہ چلتاہے، ہمیں اعتدال پسندطبقےکی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، افغان مسئلےکافوجی حل نہیں،ہمیں سیاسی تصفیےکی جانب بڑھناہوگا، پاکستان امن کیلئےعالمی کوششوں میں شراکت داری کیلئے تیار ہے۔

Comments

- Advertisement -