جمعہ, مئی 24, 2024
اشتہار

مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر اور ملّا صالح

اشتہار

حیرت انگیز

ہندوستان میں مغل دور کی تاریخ میں جہاں بہت کچھ مبنی بر صداقت ہے، وہیں من گھڑت قصّے اور افسانوی باتیں بھی شامل ہیں۔ یہ شاہی مکتوب ہیں، کچھ فرامین، انصاف کے قصّے، جنگی کارنامے اور بادشاہ کے دین سے لگاؤ، شرع کی پابندی اور بزرگوں سے عقیدت کی باتیں‌ اور نوازش و سخاوت کی کہانیاں بھی۔ جب کہ شاہی دربار سے وابستہ مؤرخین کے بیان کردہ واقعات کی صحّت مشکوک اور کہیں گمان گزرتا ہے کہ یہ کسی خوف اور مصلحت کے زیرِ اثر تحریر کردہ واقعات ہیں لیکن بہرحال ہندوستان کی تاریخ میں دل چسپی رکھنے والے انھیں پڑھتے رہے ہیں۔ یہاں ہم شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی ایک گفتگو نقل کررہے ہیں جو اس نے اپنے استاد سے کی تھی۔

اس سے قبل ہم فرانسس برنیر کا تعارف کروا دیں جس نے یہ گفتگو اپنے سفر نامے میں رقم کی۔ دنیا برنیر کو ایک طبیب، سیاح اور مصنّف کے طور پر جانتی ہے۔ وہ 1666ء تک ہندوستان میں مقیم رہا۔ اسے شاہی طبیب کی حیثیت سے عالمگیر کے دربار میں احترام حاصل تھا۔ یہ گفتگو تعلیم و تربیت پر مغل بادشاہ کے نقطۂ نظر اور اس کے خیالات کو واضح کرتی ہے۔ لیکن بعض محققین نے اسے برنیر کی اختراع قرار دیا ہے۔

برنیر کے بقول اورنگ زیب کے ایک استاد کا نام ملا صالح تھا۔ اورنگ زیب کی تخت نشینی کے بعد ملا صالح انعام و اکرام کی امید میں بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اورنگ زیب نے تخلیہ میں اسے یوں مخاطب کیا:

- Advertisement -

’’محترم استاد، فرمائیے آپ کو کس خواہش کی طلب مجھ تک لے آئی ہے۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو مملکت کے اعلیٰ ترین اعزازات سے سرفراز کروں؟ استادِ محترم، ہم کسی بھی امتیاز کے لئے آپ کے حق کا جائزہ لیں۔ میں سجھتا ہوں کہ مجھ پر آپ کا یہ حق ضرور ہوتا اگر آپ مجھے کوئی ڈھنگ کی تعلیم دیتے۔ لیکن آپ نے مجھے کیا تعلیم دی؟ کیا آپ کا یہ فرض نہ تھا کہ آپ مجھے تمام اقوام کی امتیازی خصوصیات سے آگاہ کرتے۔ یہ بتاتے کہ اُن کے وسائل کیا ہیں۔ ان کی قوت کتنی ہے، اُن کا طریقۂ حرب کیا ہے، اُن کے رسم و رواج کیا ہیں، مذہب اور طرز حکومت کیا ہے اور یہ کہ ان کے بنیادی مفادات کیا ہیں۔ آپ کو چاہیے تھا کہ تاریخ کی باقاعدہ تعلیم دے کر مجھے ریاستوں کے آغاز، ان کی ترقی اور تنزلی سے آگاہ کرتے، ان کوتاہیوں، واقعات و حادثات سے پردہ اٹھاتے جن سے تاریخ میں بڑی تبدیلیاں اور انقلابات آئے۔ گردوپیش میں آباد اقوام کی زبانوں سے واقفیت ایک حکمران کے لئے کتنی ضروری ہوتی ہے۔ لیکن آپ مجھے صرف عربی لکھنا اور پڑھنا سکھاتے رہے۔ آپ یہ بھول گئے کہ ایک شاہزادے کی تعلیم کے لئے کون سے مضامین پڑھانے چاہییں۔ آپ کے خیال میں اسے محض صرف و نحو کی مہارت چاہیے۔ وہ علم حاصل کرنا چاہیے جس کی ضرورت اس فقیہہ کو ہوتی ہے۔ اس طرح استاد محترم آپ نے میرے لڑکپن کا قیمتی وقت لفظوں کو سیکھنے اور ان کی گردانوں کو یاد کرنے کی خشک، بے فائدہ اور لامتناہی کوششوں میں ضائع کر دیا۔ کیا آپ یہ بات نہ جانتے تھے کہ بچپن میں دماغ کی اکتسابی قوت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ دانائی کے ہزاروں رموز کو باآسانی قبول کر لیتا ہے اور اسے ایسی مفید تعلیم سے آراستہ کیا جا سکتا ہے جو کسی بھی فرد کو کارہائے نمایاں انجام دینے کی صلاحیت دیتی ہے۔

میرا خیال ہے کہ اگر آپ مجھے یہ سب پڑھا دیتے تو مجھ پر آپ کے احسانات سکندر اعظم پر ارسطو کے احسانات سے زیادہ ہوتے اور میں اسے اپنا فرض جانتا کہ آپ کو وہ امتیاز عطا کروں جو سکندر نے ارسطو کو بھی نہ دیا تھا۔ بتائیے کیا آپ کا یہ فرض نہ تھا کہ مجھے یہی بنیادی نکتہ سمجھا دیتے جو کسی بھی حکمران کے لئے جاننا ضروری ہے یعنی اُس کے اور اس کی رعیت کے مابین حقوق و فرائض کیا ہوتے ہیں۔ آپ کو چاہیے تھا کہ دور بینی سے کام لیتے ہوئے سوچتے کہ مستقبل میں کسی وقت تخت کے لئے میں اپنے بھائیوں کے خلاف شمشیر بدست نبرد آزما ہوں گا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان کے ہر بادشاہ کے بچوں کی یہی تقدیر رہی ہے۔ کیا آپ نے مجھے کبھی فنِ حرب کی تعلیم دی کہ کسی بستی کا محاصرہ کیسے کیا جاتا ہے یا میدان میں فوجوں کی صف بندی کیسے کرتے ہیں۔ میری خوش قسمتی تھی کہ یہ موضوعات سکھانے کیلئے مجھے آپ سے زیادہ دانا لوگ مل گئے۔ جائیے استاد محترم اپنے وطن تشریف لے جائیے اور آج کے بعد کسی کو بھی پتہ نہ چلے کہ آپ کیا کرتے ہیں کہاں رہتے ہیں۔‘‘

(ماخوذ: ’’اورنگ زیب از لین پول اور مسلمانوں کی تعلیمی تاریخ‘‘)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں