منگل, مئی 21, 2024
اشتہار

اردو شاعری میں خیامُ الہند کے لقب سے یاد کیے جانے والے حیدر دہلوی

اشتہار

حیرت انگیز

اردو ادب کے کئی نام ایسے ہیں جن کا تذکرہ آج شاذ ہی ہوتا ہے، اور عام باذوق قاری ہی نہیں زبان و ادب کا طالبِ علم بھی ان سے واقف نہیں ہے، مگر یہ نام اپنے زمانے میں فن و تخلیق کی بدولت امتیازی پہچان رکھتے تھے۔ شاعر حیدر دہلوی کا نام بھی شاید تغیرِ زمانہ اور گردشِ وقت کی نذر ہوگیا ہے، لیکن ادبی تاریخ میں وہ ‘خیّامُ‌ الہند’ کے لقب سے پہچانے جاتے ہیں۔

حیدر دہلوی نے کم عمری ہی میں‌ شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ وہ تیرہ برس کی عمر سے‌ مشاعروں میں‌ شرکت کرنے لگے اور کم عرصہ میں اپنی سخن گوئی کی وجہ سے علمی و ادبی حلقوں میں پہچان بنانے میں‌ کام یاب ہوگئے۔ حیدر دہلوی کا تعلق شعرا کی اُس نسل سے تھا جن کی اصلاح اور تربیت داغ اور مجروح جیسے اساتذہ کے زیرِ سایہ ہوئی تھی۔

خیام الہند کا لقب پانے والے حیدر دہلوی 10 نومبر 1958ء کو کراچی میں‌ وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ اردو کے اس مشہور شاعر کا اصل نام سید جلال الدّین حیدر تھا۔ 17 جنوری 1906ء میں وہ دہلی کے ایک گھرانے میں‌ پیدا ہوئے۔ اپنے شہر کی نسبت سے حیدر دہلوی کہلائے۔ تقسیمِ ہند کے بعد حیدر دہلوی پاکستان آگئے تھے۔ یہاں انھوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی۔ شعر و سخن کا سلسلہ یہاں بھی جاری رہا اور کراچی کے مشاعروں میں شرکت کرنے کے ساتھ وہ مختلف شعرا کو اصلاح دیتے رہے۔ ادبی تذکروں حیدر دہلوی کے چیدہ چیدہ حالات، اُن کی شاعری اور ان سے منسوب بعض واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ایک جگہ لکھا ہے کہ کسی محفل میں کچھ شاعر بیخود دہلوی اور سائل دہلوی جیسے شعرا کا ذکر کر رہے تھے۔ کسی شاعر نے شعر سنائے جس میں دونوں کے تخلّص منظوم تھے۔ وہاں حیدر دہلوی بھی موجود تھے۔ شعر سن کر کہنے لگے:

- Advertisement -

’’اس شعر میں سائل اور بیخود تخلّص نہیں صرف نام معلوم ہوتے ہیں۔ کمال تو یہ تھا کہ شعر میں تخلص بھی نظم ہو اور محض نام معلوم نہ ہو‘‘

کسی نے کہا یہ کیسے ممکن ہے؟ استاد حیدر دہلوی نے وہیں برجستہ یہ شعر کہہ کر سب کو حیران کر دیا:

پڑا ہوں میکدے کے در پر اس انداز سے حیدر
کوئی سمجھا کہ بیخود ہے، کوئی سمجھا کہ سائل ہے

خمریات اردو شاعری کا وہ موضوع ہے جس میں کئی ممتاز شعرا نے طبع آزمائی کی ہے اور حیدر دہلوی نے بھی بہت نزاکت اور سلیقے سے اپنے خیالات کو موزوں کیا ہے۔ اسی لیے وہ جہانِ سخن میں‌ خیامُ الہند کہلائے۔ حیدر دہلوی کا مجموعۂ کلام ان کی وفات کے بعد صبحِ الہام کے نام سے شائع ہوا تھا۔

وہ کراچی میں پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

حیدر دہلوی کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

چمن والوں سے مجھ صحرا نشیں کی بودو باش اچھی
بہار آکر چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں