تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

بھارت کی پہلی خواجہ سرا جج

نئی دہلی: بھارتی شہر کلکتہ میں پہلی بار ایک خواجہ سرا کو عوامی عدالت کا جج مقرر کردیا گیا جس کے بعد وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خواجہ سرا بن گئیں۔

مغربی بنگال میں قائم یہ عدالتیں جرگے یا پنچائیت کی طرز پر منعقد کی جاتی ہیں جن میں عموماً مقامی لڑائی جھگڑوں کے معاملات کا حل نکالا جاتا ہے۔ جویتا منڈل اس عدالت کی جج مقرر ہونے والی پہلی خواجہ سرا ہیں۔

جویتا کو بچپن سے ہی بے انتہا مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں اسکول میں تضحیک کا نشانہ بنایا گیا، بعد میں ان کا نام اسکول سے خارج کردیا گیا۔

بعد ازاں انہیں گھر سے بھی نکال دیا گیا جس کے بعد وہ سڑکوں پر بھی سوئیں اور بھیک بھی مانگی۔ اس کے بعد وہ ریاست اتر پردیش کے ایک چھوٹے سے قصبے اسلام پور چلی آئیں اور یہیں رہائش اختیار کرلی۔

یہاں سے انہوں نے خواجہ سراؤں کی بہبود کے لیے ایک تنظیم ’دیناج پور کی روشنی‘ قائم کی جو اب تک 22 سو کے قریب خواجہ سراؤں کو مختلف اقسام کی ٹریننگز دلوا چکی ہے جو اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں۔

دو سال قبل جویتا نے ویلفیئر کمیٹیوں کے ساتھ مل کر ایڈز کا شکار افراد کے لیے ایک علیحدہ رہائش گاہ بھی تیار کروائی اور یہیں سے وہ علاقے میں مشہور ہوگئیں۔

مزید پڑھیں: خواجہ سراؤں کے لیے مفت تعلیم کا آغاز

بعد ازاں ان کی ذہانت و خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں عوامی عدالت کا جج مقرر کردیا گیا۔

جویتا کا کہنا ہے کہ عموماً وہ کوشش کرتی ہیں کہ فریقین کو آمنے سامنے بٹھا کر بات چیت سے مسئلے کا حل نکالیں۔ ان کے مطابق وہ مخالف فریقین کو بھی نرمی کا رویہ اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہیں جس کے باعث قصور وار خود ہی اپنے غلطی کا اعتراف کرلیتا ہے۔

گو کہ جویتا کو اس عدالت کا جج ان کی سماجی خدمات کی وجہ سے مقرر کیا گیا، تاہم اس عہدے پر کسی خواجہ سرا کا مقرر کیا جانا یقیناً ایک خوش آئند بات ہے۔


اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

Comments

- Advertisement -