آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’تعلیم کا عالمی دن‘ منایا جارہا ہے، اس موقع پر ہم آپ کی ملاقات کرا رہے ہیں پانچ ایسے اساتذہ سے جو تعلیم کے فروغ کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
تعلیم کا عالمی دن آج 24 جنوری 2019 کو پہلی بار پاکستان سمیت دنیا بھر میں منایا جارہا ہے۔ گزشتہ سال تین دسمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے تعلیم کا دن منانے کی قرارداد منظور کی تھی، جس کا مقصد امن اور ترقی کے لیے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔
تعلیمی نظام کا بنیادی عنصر یعنی اچھے اساتذہ، اس نظام کی روح ہیں اور جب تک اساتذہ کو معاشرے میں عزت نفس نہیں ملتی، وہ مقام نہیں ملتا جس کے وہ مستحق ہیں، وہ اپنے فرائض کو بخوبی انجام نہیں دے سکتے۔
پاکستان میں تعلیم کا شعبہ سنگین مسائل سے دوچار ہے ، اور یہاں ہنگامی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ بدقسمتی سے قیامِ پاکستان سے آج تک کسی بھی حکومت نے ملک میں تعلیمی اصلاحات کو مکمل طور پر نافذ کرنے کے لیے بجٹ نافذ نہیں کیا ، جس کے سبب اساتذہ قلیل تنخواہ میں بنا کسی مناسب تربیت کے پڑھانے پر اور طالب علم بغیر سہولیات اور جدید ٹیکنالوجی کے پڑھنے پر مجبور ہیں۔
ایسے حبس کے ماحول میں پاکستان میں بہت سے ایسے اساتذہ بھی موجود ہیں ، جو حالات کو الزام دینے کے بجائے اپنی بساط سے بڑھ کر تعلیم کی شمع کو مسلسل روشن رکھے ہوئے ہیں ، ان بے شمار عظیم کرداروں میں سے چند سے ہم آپ کا تعارف کرارہے ہیں۔
ماسٹرایوب
محمد ایوب نامی یہ استاد ایک طویل عرصے سے دارالحکومت کی سڑک پر غریب و نادار بچوں کی تعلیم کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ ان کے اسکول میں طلبا صاف ستھری سڑک پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
ماسٹر ایوب دراصل فائر فائٹر تھے، اب اس کام سے ریٹائر ہونے کے بعد وہ نادار بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔انہیں 2017 میں ویبی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا
فریدہ پروین
فریدہ پروین ایک مقامی اسکول میں معلمہ کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ لیکن ٹہریئے، بات اتنی سادہ نہیں جتنی نظر آرہی ہے، فریدہ ہر روز اپنے گھر سے اسکول پہنچنے کے لیے 35 کلو میٹر کا سفر طے کرتی ہیں، اور یہ سفر وہ موٹر سائیکل پر طے کرتی ہیں۔
پاکستان میں جہاں بڑے شہروں میں کبھی کبھار خواتین بائیک چلاتی نظر آجاتی ہیں، وہاں ایک چھوٹے سے شہر میں خاتون کا بائیک چلانا ایک نہایت حیرت انگیز اور معیوب بات ہے ۔
پاکپتن کے نواح میں واقع ان کے گاؤں بہاول میں موجود اسکول صرف پرائمری تک تھا لیکن اس کو جواز بنا کر فریدہ نے اپنی تعلیم کو خیرباد نہیں کہا۔ انہوں نے اپنے والد کی بائیک پر گاؤں سے دور ہائی اسکول جانا شروع کردیا اور اپنی تعلیم مکمل کی۔فریدہ سنہ 2014 سے گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول رام پور میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔
سلیمہ بیگم
سنہ 2017 میں دبئی کے گلوبل ایجوکیشن اینڈ اسکل فورم میں سلیمہ بیگم کو نامزد کیا گیا، وارکیو فاونڈیشن نے دنیا بھر سے بیس ہزار ٹیچرز کو چناتھا ،اور ان اساتذہ میں گلگت کی ٹیچر سلیمہ بیگم بھی شامل ہیں، سلیمہ بیگم کو دس لاکھ ڈالر کے ایوارڈ نامزد کیا گیا تھا۔
سلیمہ بیگم کا تعلق گلگت کے مضافاتی گاؤں اوشکھنداس سے ہیں،انہوں نے ایلمنٹر ی کالج ویمن گلگت میں پاکستان بھرسے پندرہ ہزار خواتین کو تربیت دی ہے۔
عقیلہ آصفی
گلوبل ٹیچرزپرائز 2016 کے لیے جن اساتذہ کا انتخاب کیا گیا تھا ان میں پاکستان میں خواتین کی تعلیم کے لیے کوشاں ’عقیلہ آصفی‘ بھی شامل تھیں۔عقیلہ کی نامزدگی کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے افغانستان میں طالبان کی قید سے فراراختیارکرکے مہاجرکیمپ میں ایک ٹینٹ مانگ کر لڑکیوں کی تعلیم کا اہتمام کیا تھا۔
مہاجر کیمپ میں مقیم افغان اور پاکستانی لڑکیوں کے لئے تعلیم حاصل کرنے کا یہ پہلا موقع تھا اورآج عقیلہ کے اسکول سے ہزاروں لڑکیاں فارغ التحصیل ہوچکی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
روحیل ورنڈ
روحیل ورنڈ کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور تعلیم کے فروغ کے لیے ان کا سولر نائٹ اسکول کا آئیڈیا تیزی سے ترویج پارہاہے اور اسے دنیا بھر میں سراہا گیا ہے ، پاکستان میں نائٹ اسکولز کا تصور تو طویل عرصے سے موجود ہے لیکن یہ وہیں ممکن تھا جہاں روشنی کا انتظام ممکن ہو ،تعلیم کی راہ کی اس سب سے بڑی رکاوٹ کو روحیل نے سولر بیگز استعمال کرکے دور کیا ہے۔
ان کے دونوں اسکولوں میں بچوں کو تعلیم کے زیور سے تو آراستہ کیا ہی جارہا ہے تاہم ان کی معاشی حیثیت کے سبب ہم ان کے لیے کپڑے ، جوتے ، گھر کا راشن ، اسکول میں موجودگی کے دوران کھانے کی اشیا، اسکول بیگ ، کتابیں اور اسٹیشنری کا انتظام بھی کرتے ہیں تاکہ ان پر سے گھر کی معاشی ذمہ داریوں کو بوجھ کم ہو۔ روحیل کی خواہش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کم از کم دس لاکھ بچوں کی تعلیم کا انتظام کرسکیں۔