انڈونیشیا جزیروں پر مشتمل دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے‘ اس اسلامی مملکت میں تقریباً 17508جزیرے ہیں۔ جن میں چار ہزار کے قریب آباد ہیں۔ پانچ بڑے جزیرے اور 30جزیروں کے جھنڈ رکھتا ہے۔ بڑے جزائر میں سماٹرا، جاوا، کلیمانٹان، سولادیسی اور ایرانی جایا شامل ہیں۔ مملکت میں 90فیصد مسلمان ہیں، باقی آبادی ہندو، بدھ مت اورآبادی آبائی چینی باشندوں اور بت پرستوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملک 27صوبوں میں منقسم ہے۔ اِس کی لمبائی 5150 کلومیٹر ہے جو آسٹریلیا تک پھیلا ہوا ہے۔ موسم گرما مرطوب ہے۔ درجہ حرارت 28 تا 33درجہ سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ ہوا میں نمی 80فیصد سے زائد ہوتی ہے۔ ستمبر سے مارچ کے اختتام تک موسم برسات رہتا ہے۔
اسلام کی آمد پہلی صدی عیسوی میں ان جزائر میں ہندی تاجروں کی آمد شروع ہوئی۔ ان کی وجہ سے انڈونیشیا میں بدھ مت اور ہندومت پھیلا۔ ساتویں صدی عیسوی میں طاقتور بدھ سلطنت سری وی جایا میں قائم ہوئی جو بڑھتے بڑھتے بورو بودر (Boro Boder) کی سلطنت بن کر مشرقی جاوا میں ابھری۔ انڈونیشیا کے بیشتر علاقے اس کے زیرنگیں آ گئے۔ وہ دو سو سال تک قائم رہی۔ جب انڈونیشیا میں اسلام پہنچا، تو جاوا کی سیاسی حالت یہ تھی کہ اس کے مرکزی اور مشرقی صوبہ جات جو آبادی و تہذیب کے لحاظ سے ترقی یافتہ تھے، مجاپہت (Majapahat)نامی ہندو ریاست کے زیرنگین تھے۔مغربی حصہ میں چربون کی حکومت اور چند چھوٹی چھوٹی خودمختار ریاستیں واقع تھیں۔ جزیرے کا بقیہ علاقہ جس میں مغربی گوشے کے تمام اضلاع شامل تھے۔ وہ راجا پجاجرن کی حکومت میں آتے تھے۔
انڈونیشیا کی تاریخ پُرامن اسلامی تبلیغ کی داستان کا نہایت دلچسپ پُرکشش اور سبق آموز باب ہے جو اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ اسلام تلوارنہیں‘ بلکہ مبلغین اسلام کی کاوشوں، ہمت اور محنت سے پھیلا۔ ہر جگہ تبلیغی کام والیانِ ملک کی سرپرستی یا امداد کے بغیر ہوا۔
دوسری صدی قبل مسیح میں لنکا کی بیرونی تجارت کلیۃً عربوں کے ہاتھ میں تھی۔ ساتویں صدی کی ابتدا میں چین کے شہر کینٹن میں عرب تاجر بکثرت نظر آتے۔ ملایا میں اسلام ساحل مالابار (ہندوستان) سے آیا جس کی بندرگاہوں میں یمن اور ایران کے تاجر آمدورفت رکھتے تھے۔
ان تاجروں نے ملکی زبان اور رسم و رواج سیکھے، مقامی عورتوں سے شادیاں کیں اور اپنی ذہانت، لیاقت، تقویٰ، ایثار اور عدل و انصاف کی بدولت صف اوّل کے امرا میں شمار ہونے لگے۔
رفتہ رفتہ انھوں نے باہمی اتفاق و یگانگت سے ایک قسم کی وفاقی حکومت بنا لی۔ وہ ملایا اور انڈونیشیا کے جزیروں میں فاتحین کی حیثیت سے داخل نہیں ہوئے بلکہ اپنے کردار اور اخلاق کی بلندی سے تبلیغ کے لیے مضبوط معاشرتی بنیاد فراہم کی۔
مشہور ہے کہ سماٹرا میں اسلام بلادِ عرب سے آیا، لیکن سماٹرا کے پہلے مبلغ غالباً ہندی مسلمان تاجر تھے۔ ملایا کی تاریخ کے مطابق آنجہ کے علاقے میں جو سماٹرا کے شمال مغرب میں واقع ہے ایک عرب بزرگ عبداللہ عارف تبلیغ کی نیت سے بارھویں صدی کے وسط میں داخل ہوئے۔
اُن کا ایک مرید برہان الدین اسلام کا پیغام سماٹرا کے مغربی ساحل پریمان (Preman) تک لے گیا۔ایک قدیم انڈونیشی کتاب، شجرہ ملایو میں لکھا ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی، سمودرا (Samudra) کے لوگ اسلام میں داخل ہوں گے۔ اسی لیے شریف مکہ نے چند لوگوں کو سماٹرا بھیجاتاکہ وہاں اسلام کا نور پھیلا سکیں۔ اس جماعت کے سربراہ جناب شیخ اسماعیل تھے۔ وہ مالابار سے روانہ ہونے کے بعد جزیرہ سماٹرا کے مغربی ساحل پاسوری نامی مقام پر وارد ہوئے۔ تبلیغ کی برکت سے وہاں کے باشندوں نے اسلام قبول کر لیا۔ پھر وہ شمال کی سمت لمبری (Lumbri) نامی علاقے میں گئے۔ پھر وہاں سے آرو (Aro)جو مشرقی ساحل پر ملاکا کے مقابل واقع ہے۔ آرو پہنچ کر سمودرا کا پتا پوچھاگیا جو پیرولاک (Perolhk)کے نزدیک واقع تھا۔ سمودرا میں ان کی ملاقات حاکم سے ہوئی جس کا نام میراہ سالو (Merah Slu)تھا۔ شیخ اسماعیل کی نظر اور ترغیب سے اس نے اسلام قبول کر لیا۔ اسے خواب میں رسول اللہﷺ کی زیارت بھی نصیب ہوئی۔
شیخ صاحب نے میراہ سالو کو قرآن کریم کا نسخہ پیش کیا اور پڑھایا پھر اسے راجا بنا کر ’’ملک الصالح‘‘ کا خطاب دیا۔ بعدازاں ملک صالح نے راجا پیرولاک کی بیٹی سے شادی کر لی جس کے بطن سے دو لڑکے پیدا ہوئے۔
ابن بطوطہ نے 1345ء میں سماٹرا کی سیاحت کی اور ملک الصالح کے بیٹے ملک الطاہر کو برسرِ حکومت دیکھا یہ بہت متقی اور دیندار بادشاہ تھا۔ شیخ اسماعیل کی کوششوں سے لمبری میں ایک ہزار خاندانوں نے اسلام قبول کیا۔ مملکت آرو کا بادشاہ اور وہاں کی رعایا بھی مسلمان ہو گئی۔
چودھویں صدی کے آخر اور پندرھویں صدی کے آغاز میں مننگ کابو (Menang Kabu)نامی ہندو سلطنت کے بعض سرداروں نے اسلام قبول کر لیا جو جزیرہ سماٹرا میں پھیلی ہوئی تھی۔ اسلام اس سلطنت میں تیزی سے پھیلنے لگا۔ لمپونگ (Lampung) کے اضلاع میں اسلام سب سے پہلے جاوا ہی کی طرف سے داخل ہوا۔ تبلیغ علاقے کے ایک سردار منک کملا بسومی (Munak Kamlabasumi) نے کی جس نے اسلام قبول کر لیا اور حج بھی کیا۔
پندرھویں صدی کے اختتام پر وہ آبنائے سنڈا (Sunda) عبور کر کے بانتم (Bantam) مملکت میں داخل ہوا جو جاوا کے مغربی ساحل پر واقع تھی اور لوگوں میں دین پھیلایا۔ جاوا میں اسلام کی ترویج وہیں کے ایک شخص نے بارھویں صدی کے قریب کی تھی۔ جاوا کے مغربی حصہ میں پجاجرن ریاست واقع تھی۔
وہاں کے بادشاہ نے دو لڑکے چھوڑے۔ بڑے نے تجارت کا پیشہ پسند کیا اور مال لے کر ہندوستان روانہ ہوا۔ سلطنت اپنے چھوٹے بھائی کے سپرد کر دی جو 1190ء میں پربومنڈنگ سری کے نام سے تخت پر بیٹھا۔ بڑا بھائی عرب تاجروں کی تبلیغ سے مسلمان ہو گیا۔ اس نے عرب مبلغ کی مدد سے اپنے بھائی اور شاہی خاندان کو بھی مسلمان کرنا چاہا، لیکن کامیاب نہ ہوا۔
چودھویں صدی کے نصف میں ملک مولانا محمدابراہیم چند مسلمانوں کے ساتھ جزیرہ مدورا کے مقابل گریسک (Gresuk) شہر میں آباد ہوئے اور تبلیغ کا کام شروع کر دیا۔ 1419ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ وہ گریسک میں مدفون ہیں۔ ان کا مزار مرجع خلائق ہے۔
راجا مجاپہت نے چمپا کے راجا کی بیٹی سے شادی کی تھی۔ چمپا ریاست کمبوڈیا میں واقع تھی۔ اس رانی کو راجا کی دوسری حرم سے حسد پیدا ہوا۔ راجا نے دوسری حرم کو اپنے بیٹے آریا دامر کے پاس بھجوا دیا، جو سماٹرا میں پالم بنگ (Palam Bung) نامی علاقے کا حاکم تھا۔ وہاں اس رانی کے ہاں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام رادن پتہ رکھا گیا۔ اس دوران راجا چمپا کی دوسری لڑکی مسلمان ہو گئی۔ ایک عرب سے اس کی شادی ہوئی جس سے رئیس المبلغین جناب رادن رحمت پیدا ہوئے۔
جب رادن رحمت کی عمر 20برس ہوئی، والدین نے اُسے اپنے خالو مجاپہت کی طرف روانہ کر دیا۔ وہ راستے میں دو ماہ پالم بنگ میں آریا دامر کے مہمان رہے۔ قریب تھا، اس کو مسلمان کر لیتے لیکن وہ اپنی رعایا کے خوف سے اسلام نہ لا سکا۔ رادن رحمت وہاں سے گریسک پہنچے جہاں جناب شیخ جمادی الکبریٰ نے ان کا استقبال کیا۔ اس نے پیشین گوئی کی کہ انڈونیشیا میں اسلام پھیلانے کا سہرا رادن رحمت کے سر رہے گا۔ رادن رحمت پھر مجاپہت کے راجا کے پاس پہنچے جو ان سے بہت متاثر ہوئے۔
گو وہ خود مسلمان نہیں ہوئے لیکن رادن رحمت کو شہر امپل (Ampel) میں تین ہزار خاندانوں کا حاکم مقرر کر دیا۔ جلد ہی شہر امپل جاوا کا سب سے بڑا اسلامی مرکز بن گیا۔ان کی شہرت سن کر جناب مولانا اسحاق امپل میں تشریف لائے تاکہ رادن رحمت کی مدد کریں۔ مولانا اسحاق کو پالم بنگ کی ریاست میں تبلیغ اسلام کے لیے مقرر کیا گیا۔ یہاں پہنچ کر انھوں نے راجا کی بیٹی کا علاج کیا جسے شفا مل گئی۔ شہزادی نے پھر بڑی گرم جوشی سے اسلام قبول کیا۔ اس کی شادی مولانا اسحاق سے کر دی گئی۔ ان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام رادن پاکو رکھا گیا۔
اس کو رادن رحمت کے ہاں بھیج دیا گیا۔ وہیں اس کی پرورش ہوئی۔ پھر رادن رحمت کی لڑکی سے اس کی شادی ہو گئی۔ رادن پاکو نے گری (Giri) میں مسجد تعمیر کی اور ہزاروں لوگوں کو مسلمان کیا۔ رادن رحمت کا انتقال ہوا تو راجا مجاپہت نے اسی کو امپل اور گریسک کا حاکم مقرر کیا۔
رادن رحمت کے دو لڑکوں نے جاوا کے شمال مغربی ساحل پر سکونت اختیار کر لی اور تبلیغ کی وجہ سے خوب شہرت پائی۔ راجا آریا دامر نے گو مسلمان ہونے کا اعلان نہیں کیا، تاہم اپنے بچوں کی تربیت اسلامی طریقے سے کروائی۔ جب رادن پتہ، راجا مجاپہت کا لڑکا بیس برس کا ہوا، تو آریا دامر نے اسے اپنے رضاعی بھائی رادن حسین کے ساتھ جاوا کی طرف روانہ کیا۔ یہ دونوں گریسک میں رادن رحمت کے ہاں ٹھہرے۔ رادن پتہ نے رادن رحمت کی پوتی سے شادی کرلی۔
اسی دوران اپنی ماں کے ساتھ بدسلوکی کرنے کے باعث رادن پتہ نے راجامجاپہت کے پاس جانے سے انکار کر دیا۔ اس نے بنترا کے دلدلی علاقے میں جو گریسک کے قریب واقع تھا، سکونت اختیار کرلی۔ ادھر رادن حسین کو راجا مجاپہت نے اپنا سپہ سالار مقرر کیا اور ایک ضلع کا حاکم بنا دیا۔ بعدازاں اس نے رحمت پتہ کو راجا مجاپہت کے پاس لے جانے کی سعی کی جس میں وہ کامیاب ہو گیا۔
باپ نے بیٹے کو معاف کر دیا اور اسے بنترا کا حاکم مقرر کیا۔ تاہم رادن پتہ اپنی ماں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی نہ بھول سکا۔ اس نے 1478ء میں باپ کے خلاف سات روزہ سخت جنگ لڑی جس میں راجا مجاپہت کو شکست ہوئی۔
یوں جاوا کے مشرقی حصہ میں ہندو راج کے بجائے ایک اسلامی حکومت قائم ہو گئی۔ اس واقعہ کے بعد بہت سے ہندو جنھوں نے اسلام قبول نہیں کیا، بھاگ کر بالی جزیرے میں آباد ہو گئے۔ اس جزیرے کی ہندو آبادی شیو دیوتا کی پجاری ہے۔
وسطی جاوا میں بھی ہندو مت کی جڑیں مضبوط تھیں۔ 1768ء میں جا کر منو سمرتی اور ہندوئوں کی دیگر قانونی کتابیں وہاں منسوخ ہوئیں۔ مشرقی جاوا میں اسلام سولھویں صدی کے آغاز میں جناب شیخ نور الدین ابراہیم کی تبلیغ سے پھیلا جو چربون کے رہنے والے تھے۔
شیخ مذکور نے ایک جذامی عورت کا علاج کیا۔ اسے اللہ پاک نے شفا بخشی۔ اس واقعے کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ ہزاروں افراد ان کے پاس اسلام کی تعلیم پانے آئے۔ کئی راجے بھی مشرف بہ اسلام ہوئے۔ شیخ نور الدین نے اپنے بیٹے مولانا حسن الدین کو اسلام کی تبلیغ کے لیے بانٹم بھیجا جو پجاجرن کے ہندو راجا کے زیر نگیں تھا۔ وہاں کے لوگوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔
مغربی جاوامیں اسلام پھیلنے کی رفتار سست رہی کیونکہ شیو کے پجاریوں اور مسلمانوں میں عرصہ دراز تک کشمکش رہی۔ سولھویں صدی کے وسط سے پہلے پجاجرن ہندو سلطنت کا خاتمہ نہ ہو سکا۔ پجاجرن سلطنت ختم ہوئی، تو وہ باشندے جو آبائی مذہب پر رہنا چاہتے تھے، جنگلوں اور پہاڑوں میں جا چھپے۔ کچھ عرصہ بعد انھوں نے سلطان بانٹم کی اطاعت اختیار کر لی۔
یوں اسلام کو بت پرستی پر مکمل فتح حاصل ہوئی۔ مغربی جاوا میں شریعت اب ایک زندہ قوت ہے۔ رئیس المبلغین رادن رحمت کی لحد سرابایا (Surabaya)میں مرجع خلائق ہے۔ مولانا محمد ابراہیم، مولانا محمد اسحاق اور ان کے چند متعلقین کے مزار گریسک میں مرجع خلائق ہیں۔ وہاں صرف قرآن خوانی ہوتی ہے۔
سنہ 1600ء میں ولندیزی حکومت نے سلطان کو شکست دے کر اس کے ملک پر قبضہ کر لیا۔ ولندیزی رفتہ رفتہ پورے انڈونیشیا پر قابض ہو گئے۔ ان کا قبضہ 1945ء تک برقرار رہا۔ اس دوران اسلام کو یورپی تہذیب و تمدن کی یلغار کام سامنا کرنا پڑا۔ تب اسلام کی بقا کے لیے1912ء میں ’’ محمدیہ تحریک‘‘ نے جنم لیا۔
اسی دور میں اسلام اور قدیم ہندو تہذیب و بدھ مت1912 ء کی تہذیب کا امتزاج شروع ہوا۔ یہ عمل روکنے کے لیے دیگر اسلامی تحریکیں مثلا ’’شرکت الاسلام‘‘ اور’’ نہضتہ العلماء‘‘ وجود میں آئیں۔ آج محمدیہ اور نہضۃ العلماءانڈونیشیا کی سب سے بڑی اسلامی جماعتیں ہیں۔ غیر سیاسی ہیں، لیکن ان کے راہنما سیاست میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔ یہ اسلامی جماعتیں تعلیمی، معاشرتی، معاشی اور صحت کے میدانوں میں خدمت انسانیت میں سرگرم ہیں۔