23.8 C
Dublin
بدھ, مئی 22, 2024
اشتہار

ژاک دریدا: ایک فلسفی اور دانش وَر

اشتہار

حیرت انگیز

معروف فلسفی اور ردِ ساختیات (ڈی کنسٹرکشن) کا بانی ژاک دریدا کو فرانس میں سارتر کے بعد سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ دریدا 2004ء میں آج ہی کے دن زندگی کی جنگ ہار گیا تھا۔

دریدا کے فلسفے اور نظریات کی ہمہ گیری نے علم و ادب کے ہر شعبہ کو متأثر کیا اور اسے عالمی سطح پر شہرت ملی مگر اس فلسفی نے جس دور میں‌ اپنے افکار اور خیالات کو بیان کیا، اس دور میں وہ صاحبِ علم شخصیات اور اہلِ قلم کی مخالفت اور تنقید کا نشانہ بنا۔ دریدا کے خیالات کو لایعنی اور اس کے فلسفے کو بے معنی کہہ کر مسترد کیا گیا۔ لیکن بعد میں‌ دنیا نے اسے علم و ادب، تنقید اور لسانیات کا یگانہ روزگار اور دانش ور تسلیم کیا۔

ژاک دریدا کینسر کے مرض میں مبتلا تھا اور 74 سال کی عمر میں وفات پائی۔

- Advertisement -

علم و ادب کی دنیا کے بعض ناقدوں اور خاص طور پر برطانوی یونیورسٹی کیمبرج کے اساتذہ اس کے بعض مباحث کو لایعنی کہہ کر مسترد کرتے رہے تھے، جس میں دریدا کا یہ فلسفہ کہ معنیٰ، متن سے ماورا ایسی تہ داری رکھتے ہیں جو تہذیبی اور تاریخی عمل سے نمو پاتی ہے، بھی شامل تھا۔ بعد میں دریدا کے اسی فلسفے نے ادب، فن، اخلاقیات اور روایتی مابعدالطبعیات پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ اس فلسفی کے لسانیات اور ادبیات پر اثرات کی مثال بہت کم ملتی ہے۔

ژاک دریدا الجزائر کے ایک یہودی خاندان کا فرد تھا اور اس نے 1930ء میں آنکھ کھولی تھی۔ الجزائر پر فرانس کا غلبہ تھا اور وہاں ایک عرصہ تک آزادی کی تحریک بھی چلتی رہی تھی۔ ژاک دریدا کے افکار اور اس کا فلسفہ اکثر تورات کے زیرِ‌ اثر نظر آتا ہے۔ ابتدائی تعلیم تو اس نے الجزائر میں مکمل کی تھی لیکن بعد میں فرانس منتقل ہوگیا اور وہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ ہاورڈ اور سوربون میں فلسفہ پڑھانے لگا اور اسی زمانے میں باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔ اس کے افکار کو جرمن فلسفی مارٹن ہائیڈیگر، ایڈمنڈ ہسرل اور فرائڈ کے خیالات کی توسیع سمجھا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ وہ فرانس میں شہرت حاصل کرنے لگا اور اس کے افکار کو قبول کیا جانے لگا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کیمبرج ہی نے 1992ء میں دریدا کو اعزازی ڈگری دی۔ اس نے فرانس میں تارکینِ وطن کے حقوق اور چیکو سلواکیہ میں آزادی کی حمایت میں مہم بھی چلائی جب کہ جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کا مخالف اور نیلسن منڈیلا کا بڑا حامی رہا۔

2003ء میں دریدا کے نام ہی سے اس کی زندگی پر ایک فلم بنائی گئی تھی جس کا دورانیہ 84 منٹ تھا۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ شخص جس کے فلسفے اور افکار کو فرانس میں در و قبول کی مشکل پیش آرہی تھی، اپنا آپ منوا چکا تھا اور اس کے فلسفے کو علم و ادب کے مختلف شعبہ میں اہمیت حاصل ہوگئی تھی۔ اس نے اپنے ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف افکارِ تازہ کے وسیلے سے جہانِ تازہ تک رسائی کے امکانات کو یقینی بنایا بلکہ اپنے انقلابی تصورات سے نئی نسل کو بھی متأثر کیا۔ اس کے متنوع افکار کی ہمہ گیری اور ان کے اثرات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یورپ میں ژاک دریدا کی حیات و خدمات اور فلسفیانہ تصوّرات پر پانچ سو سے زائد مفصل اور جامع تحقیقی مقالات لکھے گئے۔ ریسرچ اسکالرز نے چودہ ہزار سے زائد مقالات لکھ کر اس کے اسلوب کی تفہیم کی کوشش کی اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

ژاک دریدا کی ان تصانیف کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں‌ میں کیے گئے اور ان پر تحقیق و تنقید کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ Husserl’s geometry 1962 میں، Speech and phenomena 1973 میں اور اس کے بعد دو مشہور تصانیف Of Grammatology اور Writing and Difference کے عنوان سے سامنے آئیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں