ہفتہ, جنوری 25, 2025
اشتہار

کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

اشتہار

حیرت انگیز

 شاعرِ بے بدل اور خاتم الشعراء کے القاب سے مشہور نوجوان دلوں کی آواز بننے والے جون ایلیا کی آج 86ویں سالگرہ ہے‘ ان کی شاعری آج بھی زمانے کی تلخیوں اور بے اعتنائیوں کو بےنقاب کرتی ہے اورزندگی کی نئی جہتوں سے متعارف کراتی ہے۔

شاعرِ بے بدل جون ایلیا 14 دسمبر، 1931ء کو امروہہ، اترپردیش کے ایک ‏نامورخاندان میں پیدا ہوئے وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب ‏سے چھوٹے تھے۔ ان کے والدعلامہ شفیق حسن ایلیا کوفن ‏اورادب سے گہرا لگاؤ تھا اس کے علاوہ وہ نجومی اور شاعر ‏بھی تھے۔ اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل ‏بھی انہی خطوط پرکی انہوں نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 ‏سال کی عمر میں لکھا۔ جون اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں ‏قلم طرازہیں۔‏

‏”میری عمرکا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم ‏اورماجرہ پرور سال تھا اس سال میری زندگی کے دو سب ‏سے اہم حادثے، پیش آئے پہلاحادثہ یہ تھا کہ میں اپنی ‏نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ ‏لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا جبکہ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں ‏نے پہلا شعر کہا‏

چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

- Advertisement -

ایلیا کے ایک قریبی رفیق، سید ممتاز سعید، بتاتے ہیں کہ ایلیا ‏امروہہ کے سید المدارس کے بھی طالب علم رہے یہ مدرسہ امروہہ میں اہل تشیع حضرات کا ایک معتبر مذہبی مرکز رہا ہے چونکہ جون ایلیا خود اہل تشیع خاندان سے تعلق رکھتے تھے اسلئے وہ اپنی شاعری میں جابجا شیعی حوالوں کا خوب استعمال کرتے تھے۔حضرت علی کی ذات مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا۔۔ سعید کہتے ہیں، “جون کو زبانوں ‏سے خصوصی لگاؤ تھا۔ وہ انہیں بغیر کوشش کے سیکھ لیتا تھا۔ ‏عربی اور فارسی کے علاوہ، جو انہوں نے مدرسہ میں سیکھی تھیں، ‏انہوں نے انگریزی اور جزوی طور پر عبرانی میں بہت مہارت ‏حاصل کر لی تھی۔”‏

جون ایلیا نے 1957ء میں پاکستان ‏ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی ‏حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور ‏پذیرائی نصیب ہوئی۔

جون کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش
اب کئی ہجر گزر چکے اب کئی سال ہوگئے

جون ایک انتھک مصنف تھے، لیکن انھیں اپنا تحریری کام شائع ‏کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ‏شاید اسوقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی اس قدر تاخیر سے اشاعت کی وجہ وہ اس شرمندگی کو قراردیتے ہیں جو ان کو اپنے والد کی تصنیفات کو نہ شائع کراسکنے کے سبب تھی۔

میں جو ہوں جون ایلیا ہوں جناب
اس کا بے حد لحاظ کیجیے گا

‏نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش ‏لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ‏ہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی ‏شاعری کا دوسرا مجموعہ ’یعنی‘ ان کی وفات کے بعد 2003ء میں ‏شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان ’گمان‘ 2004ء میں ، چوتھا مجموعہ ’لیکن‘ 2006 میں، اور پانچواں مجموعہ کلام ’گویا‘ سنہ 2008 میں شائع ہوا ۔

انہیں مختلف رسائل کے لیے جو مضامین اور انشائیے تحریر کیے وہ اردو ادب میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ’فرنود‘ کے عنوان سے ان تحاریر کا مجموعہ سنہ 2012 میں منشۂ شہود پر آیا اور’راموز‘ کے نام سے الواح پر مشتمل ایک منفرد طرز کی شاعری کا مجموعہ منظرِر عام پر آیا۔

خالد احمد انصاری کہتے ہیں کہ یہ کتاب جون کا ایک عظیم کارنامہ ہے جس پر جون نے برسوں کام کیا، اس کے ایک اک لفظ اور مصرعے کو کئی بار پرکھا اور خون تھکواد ینے والی ذہنی مشقت کے مرحلے سے گزارا جس سے گزر کر راموز بلاشبہ ایک شاہکار کا درجہ حاصل کرنے جارہی ہے اور جون کے بارے میں دنیا کا نظریہ تبدیل کرکے رکھ دے گی۔

جون ایلیا مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی ‏پسند اور فوضوی تھے۔ ان کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی، کو ‏مذہبی انتہاپسندوں نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وہ عوامی ‏محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے۔

ایک سایہ میرا مسیحا تھا
کون جانے، وہ کون تھا کیا تھا

جون ایلیا تراجم، تدوین اور اس طرح کے دوسری مصروفیات میں بھی ‏مشغول رہے لیکن ان کے تراجم اورنثری تحریریں آسانی سے ‏دستیاب نہيں ہیں۔ انہوں اسماعیلی طریقہ کے شعبۂ تحقیق کے سربراہ کی حیثیت سے دسویں صدی کے شہرۂ آفاق رسائل اخوان الصفا کا اردو میں ترجمہ کیا لیکن افسوس کے وہ شائع نہ ہوسکے۔

بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی ‏سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی ‏انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی ‏شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں ‏کر سکيں۔

میں اپنے شہر کا سب سے گرامی نام لڑکا تھا
میں بے ہنگام لڑکا تھا ‘ میں صد ہنگام لڑکا تھا
مرے دم سے غضب ہنگامہ رہتا تھا محلوں میں
میں حشر آغاز لڑکا تھا ‘ میں حشر انجام لڑکا تھا

مرمٹا ہوں خیال پر اپنے
وجد آتا ہے حال پر اپنے

جون ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں ان کی ‏ملاقات اردو کی ایک اور مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے ‏بعد میں انہوں نے شادی کرلی۔ زاہدہ حنااپنے انداز کی ترقی ‏پسند دانشور ہیں اور مختلف اخبارات میں ‏میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ جون کے ‏زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ 1980ء کی دہائی کے وسط ‏میں ان کی طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد تنہائی کے باعث جون کی ‏حالت ابتر ہو گئی۔ وہ پژمردہ ہو گئے اور شراب نوشی شروع کردی۔

کبھی جو ہم نے بڑے مان سے بسایا تھا
وہ گھر اجڑنے ہی والا ہے اب بھی آجاؤ

جون ہی تو ہے جون کے درپے
میرکو میر ہی سے خطرہ ہے

کمال ِ فن کی معراج پرپہنچے جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کرگئے‘وہ سخی حسن کے قبرستان میں اپنے خاندانی احاطے میں زیرِ زمین محوِ خواب ہیں۔ ان کی وفات کے بعد منظرِ عام پر آنے والے ان کے کلام ‘ اور مضامین کےمجموعے فرنود نے انہیں آج کے دور مقبول و معروف شاعر و فلسفی بنا دیا ہے۔

کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مرجائیں گے

اہم ترین

فواد رضا
فواد رضا
سید فواد رضا اے آروائی نیوز کی آن لائن ڈیسک پر نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں‘ انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ سے بی ایس کیا ہے اور ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پرتنقیدی نظر رکھتے ہیں

مزید خبریں