جمعرات, مئی 15, 2025
اشتہار

دہشت گردی کے خطرات کا سامنا کرتا شہرپشاوراوراس کے صحافی

اشتہار

حیرت انگیز

ہماری گاڑی دھماکے کی زد میں آگئی ہے اور اسٹاف سے رابطہ نہیں ہورہا ہے۔ یہ وہ الفاظ تھے جو مجھے اسانٹمنٹ اڈیٹر وقار احمد نے موبائل پر بتائے ۔ اس وقت میں اپنے بچوں کو ڈاکٹر سے چیک اپ کرانے کلینک میں داخل ہورہا تھا۔ میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ پشاور کے مضافاتی علاقہ متھرا میں ہماری ٹیم پولیس موبائل پر ریموٹ کنٹرول بم حملے کی  کوریج کے لئے گئی ہوئی تھی اور جونہی جائے وقوع پر پہنچ کر ابتدائی فوٹیج اے آروائے نیوز کے فیڈ روم میں ریکارڈ کرارہی تھی کہ دوسرا دھماکہ ہوا ہے ۔ یہ فون بند ہوتے ہی مجھے ڈاکٹر اور بچہ بھولے ہوئے تھے کیونکہ اسٹیشن ہیڈ ہونے کے باعث میری توجہ اپنے ساتھیوں کی طرف چلی گئی اور اس دوران میں نے موقع پر موجود ڈی ایس این جی انجنئیر سے رابطہ ہوا تو اس نے بتایا کہ دھماکہ ان سے دس قدم کے فاصلے پر ہوا ہے لیکن وہ محفوظ ہیں۔

A3

دھماکے میں آج چینل کا ڈرائیور شہزاد زخمی ہوا ہے اور چینل 24 اور  ایکسپریس کی گاڑیوں کو نقصان پہنچا ہے ۔ اس فون کے بعد اطمینان ہوا کہ ساتھی بچ گئے ہیں اور اس کے بعد میں بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا ۔ امریکہ میں گیارہ ستمبر کے دہشت گردی کے واقعے کے بعد افغانستان پر حملہ اور اس کے تناظر میں کالعدم تنظیموں پر 2004سے شروع ہونے والے ڈروں حملوں کے ردعمل میں دہشت گردی کے واقعات کی  کوریج کے دوران پشاور اور قبائیلی علاقوں کے چالیس کے قریب میڈیا ورکر اپنی جان گنوا چکے ہیں اور یہی وجہ ہے پاکستان صحافیوں کے لئے غیر محفوظ ملک بن چکا ہے۔ وہ کیا وجوہات ہیں کہ میڈیا جس کو خطرات کا سامنا ہے اور آپریشن ضرب عضب،( جسے دہشت گردوں کے مکمل خاتے کا آپریش قرار دیا جارہا ہے ) کی باعث خطرات اور دھمکیاں بھی بڑھ گئی لیکن فیلڈ پر موجود میڈیا ورکر غیر محفوظ نظر آتے ہیں حالانکہ ایک خطیر رقم بیرونی امداد سے ان کی ٹریننگ پر بھی  خرچ ہورہی ہے اور اب تو حکومتی سطح پر میڈیا سیکیورٹی کے لئے کمیٹی بھی بن چکی ہے ۔

A2

متھرا میں ہونے والے واقعہ جس میں 19افراد زخمی ہوئے اور ایک جاں بحق ۔ ان میں زیادہ تر پولیس اہلکار ہیں جبکہ ایک میڈیا ورکر شامل تھا۔ اس واقع میں میڈیا کے ٹارگٹ ہونے کے حوالے سے جب میں اپنے ساتھیوں کی رائے لی تو آج چینل کی بیوروچیف پشاور فرزانہ علی کا کہنا تھا کہ اس میں پولیس کی غفلت ، عدم توجہی اور میڈیا کارکنوں کی لاپرواہی کارفرما ہے ان کا کہنا تھا کہ جائے وقوعہ پر بم ڈسپوزل ٹیم لیٹ پہنچی اور کرائم سین پر کوئی رکاوٹ نہیں تھی اس لئے ان کی ٹیم کوریج کی غرض سے آگے بڑھی تو دوسرا دھماکہ ہوگیا جس میں ان کی ڈی ایس این جی وین کے ڈرائیور کو معمولی زخم آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس کو بھی آرمی کی طرح ایسے واقعات کی صورت میں میڈیا کے لئے ایک حدود کا تعین کرنا چاہیے۔ جبکہ میڈیا کو اپنی سطح پر متفقہ لائحہ عمل ترتیب دینا چاہے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ کچھ میڈیا ہاوسز نے اپنے ورکروں کو ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹ دی تھی لیکن پھر وہ واپس منگوالی حالانکہ پشاور میڈیا خطرات کے حوالےسے خطرناک شہر ہے کیونکہ قبائلی علاقہ اور افغان سرحد اس سے متصل ہے ۔

A1

چینل 24کے بیورچیف فخر کاکاخیل کا کہنا تھا کہ دھماکے میں انکی گاڑی بری طرح متاثر ہوئی ہے لیکن خوش قسمتی سے گاڑی خالی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھی دہشت گردی کی لہر کی وجہ سے ٹراما سے گزر رہے ہیں اور ابھی تک ان کو اپنی حفاظت کی سوچ ہی نہیں ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ فیلڈ میں میڈیا ورکروں اور گاڑیوں کو ساتھ ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے اک دوسرے سے فاصلہ رکھنا چاہے تاکہ اگر میڈیا پر حملہ ہو تو بڑے نقصان سے بچا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ میڈیا ورکروں پر بریکنگ کی دھن سوار ہوتی ہے کیونکہ ڈیسک پیچھا سے دباو ڈال رہا ہوتا ہے اس لئے وہ اپنی حفاظت کو بھول جاتے ہیں ۔ میڈیا کی کوریج کے جنون کاا س بات سے بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ پشاور میں ایرانی قونصلیٹ پر حملے کی کوریج کے دوران وہ ایک ایسی گاڑی کے قریب چلے گئے جس میں دس کلو وزنی بم پڑا ہوا تھا وہ تو بم ڈسپوذل سکواڈ کا عملہ وہاں پہنچ گیا اور انہوں نے میڈیا کو دور کیا۔

A5

متھرا واقعہ کی کوریج کرنے والے اے ار وائے نیوز کی کیمرہ میں ارشد خان نے بتا یا کہ جب دوسرا دھماکہ ہوا تو اس سے قبل وہ پہلے دھماکے کی کوریج کررہے تھے اور جونہی دھماکہ ہوا وہ گر پڑا لیکن جلدہی دوبارہ کیمرہ اٹھایا اور پہلے اپنے ساتھیوں کو دیکھا اور پھر فوٹیج بنانا شروع کردی ۔ ان کا کہنا تھات کہ خطرات تو ہیں جب ایسے واقعے کی کوریج کے لیے جاتے ہیں تو اپنے خطرے کوبھولے ہوتے ہیں ۔


ان کا کہنا تھاکہ اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے ادارے نے لائف اور ہیلتھ انشورنس کرائے ہوئے ہے جبکہ اکثر اداروں میں یہ سہولت نہیں 


شہزاد محمود اے آروائے نیوز رپورٹر کا کہنا تھا کہ دھماکے کے بعد میڈیا، ریسکیو اور پولیس مل کر ایک دوسرے کو ریسکیو کررہے تھے ۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کے ادارے نے بلٹ پروف جیکٹ فراہم کی

ہوئی ہے اور اس کا استعمال کرنا چاہے ۔ ان کا کہنا تھا چونکہ رپورٹر اور کیمرہ مین کو خبر کی تلاش کی غرض سےادھر ادھربھاگنا پڑتا ہے اس لئے بلٹ پروف اور ہیلمٹ وزنی ہونے کے باعث پہنے سے اجتناب کرتے ہیں ۔ انہوں نے جرنلسٹ سیفٹی ٹریننگ حاصل کی ہے لیکن وہ کہتے ہیں ایسا واقعات میں ان کی نظر خبر اور فوٹیج پر ہوتی ہے ۔

A4

یہ واقعہ اور اس قسم کے دیگر بیشتر واقعات اس بات کو عیاں کرتے ہیں کہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے زیادہ سے زیادہ ادارتی اور تنظیمی سطح پر ٹریننگ کا انعقاد کیا جائے تاکہ وہ محسوس کرسکیں کہ خبر کا حصول تو ضروری ہے لیکن ان کی جان بھی ضروری کیونکہ زندہ شخص ہی واقعات کو بیان کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات کی دور سے کوریج کرنے چاہئے جیسا کہ حالیہ دنوں میں فرانس میں دیکھنے کو ملی۔

اہم ترین

ضیاء الحق
ضیاء الحق
ضیاء الحق پیشے سے صحافی ہیں اور بیوروچیف اے آر وائی نیوز خیبر پختوانخواں کی حیثیت سے اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں

مزید خبریں