چترال: وادی کیلاش میں رہنے والی قدیم اور منفرد تہزیب کی حامل خواتین اپنے حالاتِ زندگی بہتر بنانے کے لیے گھریلودستکاری کو فروغ دینے میں کوشاں ہیں۔
وادی کیلاش کی خواتین نہایت محنتی اور جفاکش ہیں، یہ خواتین بغیرکسی حکومتی امداد کے گھر بیٹھے دستکاری کی کام کرتی ہیں اور گھر کا چولہا جلاتی ہیں۔ وادی کیلاش انیش، بمبوریت، کڑاکار وغیرہ کے دیہات میں کیلاش خواتین کی چھوٹے چھوٹے دستکاری مراکز ہیں جہاں وہ سلائی کڑھائی ، گلکاری اور محتلف قسم کے نقش و نگاری کرکے اپنے لئے رزق حلال کماتی ہیں۔
انیش گاؤں سے متصل شاہی گل بی بی جو کیلاش قبیلے کے نہایت مقبول خاتون ہیں جنہوں نے اپنے گھرکے ایک کمرے میں ایک چھوٹا سا دستکاری مرکز کھولا ہوا ہے جہاں کیلاش قبیلے کے روایتی پوشاک، قمیص، کیلاش ٹوپی، کپوسی، کرتہ، ناڑے اور پٹی وغیرہ فرخت کیا جاتا ہے۔
شاہی گل نے اپنے گاؤں کے خواتین کو یہ ہنر سکھانے کی بھی ٹھان رکھی ہے اور اس نے مصمم ارادہ کیا ہے کہ وہ اپنے گاؤں کی ہر لڑکی، ہرعورت کو ہنرمند بناکرانہیں اس قابل بنائے گی کہ وہ کسی کی محتاج نہ ہو۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے اپنے گھرکے قریب ہی پڑوسی کی گھر کا ایک کمرہ کرایہ پرلیا ہوا ہے جہاں اس نے کئی سلائی مشینیں رکھی ہیں۔
مزید پڑھیں: کالاش کی نومسلم لڑکی نے جبری اسلام قبول کرنے کی تردید کردی
اس مرکز میں علاقے کی خواتین آکر مفت سلائی کڑھائی کا کام سیکھتی ہیں، ہمارے نمائندے سے باتیں کرتے ہوئے شاہی گل نے کہا کہ وہ کسی سے کوئی فیس نہیں لیتیں اور خواتین کو مفت یہ ہنر سکھاتی ہے تاہم ان کی بیٹیاں اس فن میں زیادہ دلچسپی لیتی دکھائی نہیں دیتی۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ اس کام کیلئے کسی نے ان کے ساتھ کوئی تعاون کیا ہےتو جواب نفی میں ملا۔ اگر مجھے کسی ادارے کی جانب سے کم از کم سلائی مشین بھی مل جائے تو میں پورے علاقے کے خواتین کو ہنر مند بناسکتی ہیں شاہی گل نے اپنے مخصوص انداز میں بات کرتے ہوئی کہی۔
اس دستکاری مرکز میں کام سیکھنے کی عرض سے آئی ہوئی ایک اور کیلاش خاتون نے کہا کہ میں یہاں کافی عرصے سے کام کررہی ہوں اور ہم لوگ کام سیکھنے کے بعد روایتی پوشاک، لباس اور دستکاری چیزیں بنا کر انہیں شو روم میں بیچتےہیں جس کی آمدنی سے ہم اپنے بچوں کی تعلیم اور گھر کی اخراجات پورے کرتے ہیں۔
کیلاش ثقافت سے متعلقہ دستکاری چیزیں نہ صرف پاکستان میں بلکہ اپنی مخصوص ثقافت اور نرالی انداز کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں اور جب بھی کوئی ملکی یا غیر ملکی سیاح وادی کیلاش آتا ہے تو وہ ضرور کیلاش دستکاری مراکزسے کیلاش ثقافت سے وابستہ کچھ نہ کچھ خرید لیتے ہیں۔
اگر حکومتی سطح پر کیلاش ثقافت کو ترویج دی جائے اوران دستکاری مراکز میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ تیکنیکی اور مالی طور پر معاونت کرے تویقینی طور پراس وادی سے غربت کا حاتمہ ہوگا اور یہ لوگ پھر کسی کی امداد
کی منتظر نہیں ہوں گے۔