کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے کئی ممالک کے برابر آبادی رکھنے والا یہ شہر اپنی دریا دلی اور وسیع آغوش کے لیے مشہور ہے، کہا جاتا ہے کہ اس شہر کا کوئی مہمان بھوکے پیٹ نہیں سوتا۔
قدرتی بندرگاہ رکھنے والے اس شہر کی معاشی اہمیت کا اندازہ لگاتے ہوئے قابض برطانوی حکمرانوں نے کراچی کو سندھ کا دارالحکومت بنایا جب کہ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے اسی شہر کو ملک کا دارالخلافہ اور اپنا مسکن بنایا اور یہی مدفون ہوئے۔
دنیا کا ساتواں بڑا شہر اور مسلم دنیا کا سب سے بڑا شہر کراچی مسائل کی آماج گاہ بنا ہوا ہے جہاں کبھی سڑکیں دھلا کرتی تھیں اب گندگی کے ڈھیر ہیں، کبھی سرکلر ریلوے اور ٹرام شہریوں کو شہر بھر لیے گھومتی تھیں تو اب سکڑ کر چنگ چیوں کی صورت اختیار کر گئی ہیں، رواداری و محبت کی جگہ فرقہ واریت اور لسانی نفرت نے لے لی ہے ۔
حالیہ بارشوں نے شہر بھر کے ابلتے نالوں کے ذریعے شہر کے مسائل اگل دیئے ہیں لیکن کوئی نہیں جو دیکھے اسے، تالاب کا منظر پیش کرتیں نوحہ کناں سڑکوں کی آہ و بکا سے بھی کسی کے کان میں جوں نہیں رینگتی اور سننے والا کھلے گٹر اور ننگے تاروں کے ذریعے زحمت بنتی بارانِ رحمت کے متاثرین کے غم میں کوئی شریک نہیں۔
لیکن مسائل کے انبار سے نبرد آزما شہریوں کے لیے خدمت اور شہر کی تعمیرکرنے کی دعوے دار صوبائی حکومت اور اختیارات کا رونا رونے والی مقامی حکومت کے درمیان بیان بازی کے سوا اور کچھ برآمد نہیں ہوا۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ڈھائی کروڑ آبادی والے شہر کے مسائل کے حل کے لیے کوئی نظام میئسر نہیں، پرویز مشرف کے بعد سے اب تک کے بلدیاتی اداروں میں اگر کوئی تبدیلی آئی ہے تو وہ ’’تبدیلی نام ‘‘ کی ہے،کبھی کے ایم سی، کبھی زیڈ ایم سی کبھی کمشنری تو کبھی ایل جی او 2012 ….. اور کام ندارت۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 8 برس سے کراچی کے شہریوں کو بلدیاتی نظام کے نام پر مذاق کے سوا کچھ نہیں کیا گیا،کبھی کمشنری نظام کی بحالی پر تن تنہا پیپلز پارٹی اسمبلی کی ڈیسکیں بجاتے نظر آتی تو کبھی لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012 پر پی پی اور متحدہ بغلیں بجاتی نظر آئیں لیکن نتیجہ صفر ہی نکلا۔
شہر کا ستیاناس ہوتا رہا اور شہر کے نمائندے یہی فیصلہ نہ کر سکے کہ شہر کو کون سا نظام دیا جائے یہاں تک کہ سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی اور طاقت کا سرچشمہ عوام کو قرار دینے والے بہ مشکل بلدیاتی انتخابات کروانے پر مجبو ہوئے۔
پورے ملک میں بلدیاتی نظام ہوئے لیکن کراچی کا امتحان ابھی باقی تھا سیاسی دگرگوں اور کشمکش کا خمیازہ اہالیان کراچی کو بھگتنا پڑا، گو کہ کراچی کے منتخب میئر نے بھی حلف اُٹھا لیا لیکن اسیر میئر کراچی کی خدمت کے لیے دستیاب نہ تھا۔
رہائی کے بعد میئر کراچی وسیم اختر کراچی کی سڑکوں پر کام کرنے کے بجائے ناکافی اختیارات اور فنڈز کی عدم دستیابی کا رونا روتے نظر آتے ہیں،ان کی شکایت ہے کہ بلدیاتی ادارے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کے ڈی اے کی بحالی اور سولڈ ویسٹ مینیجمنٹ کا انتظامی اور مالیاتی نظام سندھ حکومت نے اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے جب کہ پورا نظام بیورو کریسی کے ہاتھوں یرغمال ہے جہاں بلدیاتی نمائندوں کے پاس کرنے کو کچھ نہیں۔
سندھ اور مقامی حکومت میں جاری کشمکش ایک طرف لیکن اس کا خمیازہ کراچی کے شہریوں کو بھگتنا پڑرہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ گزشتہ کئی دھائیوں سے حکومتی توجہ سے محروم کراچی کے مسائل کو حل کیا جائے کیوں کہ یہ شہر پورے ملک کا وقار اور معاشی شہ رگ ہے۔