منگل, مئی 21, 2024
اشتہار

عہدِ شاہ جہاں میں لاہور شہر کے مدارس

اشتہار

حیرت انگیز

شاہ جہاں کا عہد مغلیہ سلطنت کے عروج کا دور تھا۔ اُس کے زمانے کی کئی عمارتیں یا ان کے کھنڈرات فنِ معماری میں شہنشاہِ ہند کی دل چسپی کا ثبوت اور اس دور کی یادگار ہیں۔ شاہ جہاں کی وجہِ شہرت تاج محل بھی ہے جو ملکہ ممتاز محل سے اُس کی لازوال محبّت کی داستان کا ایک نقشِ عظیم ہے۔

1627 میں بادشاہ کی وفات کے بعد شاہ جہاں نے حکم رانی کا تاج اپنے سَر پر سجایا تھا۔ لال قلعہ، شاہ جہانی مسجد بھی اسی کے دور کی یادگار عمارتیں‌ ہیں۔

شہنشاہِ ہند شہاب الدّین، شاہ جہاں کے زمانے میں لاہور ایک بڑا علمی، ادبی اور تمدنی مرکز تھا۔ بادشاہ بھی علوم و فنون کا شیدائی اور سَرپرستی کرنے والا تھا۔ شاہ جہاں کے عہدِ حکومت میں ہندوستان کے طول و عرض میں کئی اسلامی مدارس قائم ہوئے۔ گلی کوچوں میں مکتب کھلے اور تعلیم عام ہوئی۔

- Advertisement -

محمد صادق ’’طبقاتِ شاہجہانی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس وقت گاؤں گاؤں میں مدرسہ تھا، کوئی قصبہ تعلیمی چرچے سے خالی نہ تھا۔ یہ عام حالات تھے۔ یہ تمام مدرسے آزاد تھے جہاں کوئی فیس، کوئی اخراجات نہ تھے۔ ان میں بعض مدارس کو مقامی لوگ اور مخیّر حضرات اپنے مصارف سے قائم رکھے ہوئے تھے۔ شاہ جہاں کے دور میں قائم ہونے والے مدارس کی ایک بڑی تفصیل ہے جس میں سے چند کا مختصراً ذکر ہم یہاں کررہے ہیں۔

مدرسہ دائی لاڈو
دائی لاڈو شہنشاہ شاہ جہاں کی دایہ تھی۔ یہ نہایت پرہیزگار اور مال دار خاتون تھیں۔ شیخ سلیم چشتی کی مرید تھیں۔ ان کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ 1631ء میں انھوں نے ایک مسجد تعمیر کروائی تھی جس کے صحن میں ہی ان کی اور ان کے شوہر کی تدفین بعد میں کی گئی۔ اسی مسجد کے ساتھ دائی لاڈو نے ایک بڑا مدرسہ بھی تعمیر کروایا اور اس کے اخراجات کے لیے اپنی جائیداد کا ایک حصّہ بھی وقف کیا۔ بعد میں‌ سکھوں نے لاہور کو تاراج کیا تو کئی مدارس کی طرح یہ مدرسہ بھی ختم ہو گیا۔

مدرسہ نواب وزیر خان
لاہور کے اس مشہور مدرسہ کے بانی نواب علیم الدین انصاری تھے جنھیں شاہ جہاں نے وزیر خان کا لقب دیا تھا۔ وہ اس دور میں لاہور کے گورنر کے عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے 1634ء میں جامع مسجد اندرونِ دہلی دروازہ تعمیر کروائی تھی۔ اور اس کے اندر ہی یہ مدرسہ قائم کیا تھا جو انہی سے موسوم ہے۔ نواب وزیر خان نے 1641ء میں خاصی جائیداد اور املاک اس مسجد اور مدرسہ کے اخراجات کے لیے وقف کر دی تھی۔ اس مدرسہ کے بارے میں زیادہ معلومات اور اس کی مکمل تاریخ تو دست یاب نہیں البتہ قدیم کتابوں میں اس کی شہرت کا ذکر ضرور ملتا ہے۔

مدرسہ تیل واڑہ درس میاں وڈا
یہ اہم مدرسہ شاہ جہاں کے دور میں محلہ تیل واڑہ میں قائم ہوا تھا۔ یہ مغلپورہ کا ایک حصہ تھا جہاں مغل امراء کے بڑے بڑے محلات اور حویلیاں تھیں۔ اسے درس میاں وڈا کے نام سے جانا گیا۔ اس درس کا آغاز مولانا حضرت اسماعیل ؒسہروردی نے کیا تھا جن کی شہرت اس زمانے میں خاصی ہوئی۔ ان کی وفات 1674ء میں ہوئی۔

مدرسہ شیخ جان محمدؒ حضوری
عہدِ شاہ جہاں میں دھرم پورہ کے قریب جہاں گردوارہ چوبچہ صاحب رام رائے تھا اس کے سامنے ایک مقام پر یہ مدرسہ قائم تھا۔ اس سے ملحق ایک عظیم الشان مسجد بھی وہاں تھی جسے قصاب خانہ والی مسجد کہا جاتا تھا، کیونکہ یہ محلّہ قصاباں مشہور تھا۔ یہ قصاب عہدِ جہانگیر میں یہاں آن بسے تھے۔ مسجد قصاب خانہ سے متصل اس مدرسے میں حضرت جان شاہ حضوری درس دیا کرتے تھے جو خود بھی بڑے متقی تھے اور حضرت میاں وڈا کے مرید تھے۔

مدرسہ خیر گڑھ
لاہور کے مشہور و معروف علاقے گڑھی شاہو کو اکبر اعظم کے زمانے میں شیخو کی گڑھی کہا جاتا تھا۔ شاہ جہاں کے زمانہ میں بغداد سے ایک نہایت فاضل اور جید عالم مولانا ابوالخیرؒ لاہور آئے، اور حکومت کے ایماء پر انھوں نے درس و تدریس کے لیے ایک مدرسہ شیخو کی گڑھی میں بنوایا جس کا تمام خرچ لاہور کے شاہی خزانے سے ادا کیا جاتا تھا۔ مولانا نے 1723ء میں وفات پائی۔ آپ کے بعد بھی یہ مدرسہ جاری رہا لیکن سکھ دور میں جہاں دوسرے اسلامی مدارس کو نقصان پہنچا وہاں یہ علاقہ بھی ویران ہو گیا اور آج اس مدرسے کا نام و نشان تک باقی نہیں‌ بلکہ اس کا اصل مقام تک کسی کو معلوم نہیں۔

ان مدارس کے علاوہ مدرسہ ابو الحسن خان تربتی، مدرسہ شیخ بہلولؒ، مدرسہ مُلا فاضل ؒ اور دیگر مدارس شاہ جہانی عہد کے مشہور مدارس تھے۔

(مآخذ: تاریخِ لاہور، شاہجہانی عہد اور دیگر کتب)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں