جمعرات, مئی 15, 2025
اشتہار

معروف شاعر محسن بھوپالی کو ہم سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے

اشتہار

حیرت انگیز

آج اردو ادب کو لافانی اشعار دینے والے معروف شاعر محسن بھوپالی کی 12ویں برسی ہے‘ انہوں نے اردو شاعری کو نئی جہت عطا کی اورزندگی بھر مزاحمت کا استعارہ بنے رہے۔

محسن بھوپالی کا اصل نام عبدالرحمن تھا اور وہ بھوپال کے قریب ضلع ہوشنگ آباد کے قصبے سہاگ پور میں 29 ستمبر 1932ء کو پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان نقل مکانی کرکے لاڑکانہ منتقل ہوگیا اور پھر کچھ عرصے کے بعد حیدرآباد میں رہائش اختیار کی۔ آخر میں وہ کراچی منتقل ہوگئے۔

این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کرنے کے بعد وہ 1952ء میں محکمہ تعمیرات حکومت سندھ سے وابستہ ہوئے۔ اس ادارے سے ان کی یہ وابستگی 1993ء تک جاری رہی۔ اسی دوران انہوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

محسن بھوپالی کی شعر گوئی کا آغاز 1948ء سے ہوا۔ ان کی وجہ شہرت شاعری ہی رہی۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ “شکست شب” 1961ء میں منظر عام پر آیا۔ ان کی جو کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں ان میں شکست شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گرد مسافت، قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعہ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقد سخن شامل ہیں۔

محسن بھوپالی کویہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اولین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے انجام دی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریب رونمائی تھی جس کے کارڈ بھی تقسیم کئے گئے تھے۔ وہ ایک نئی صنف سخن نظمانے کے بھی موجد تھے۔

محسن بھوپالی اردو کے ایک مقبول شاعر تھے ۔ ان کی زندگی میں ہی ان کے کئی قطعات اور اشعار ضرب المثل کا درجہ حاصل کرگئے تھے خصوصاً ان کا یہ قطعہ توان کی پہچان بن گیا تھا اور ہر مشاعرے میں ان سے اس کے پڑھے جانے کی فرمائش ہوتی تھی۔

تلقین اعتماد وہ فرما رہے ہیں آج
راہ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

معروف محقق عقیل عباس جعفری کی کتاب ’پاکستان کے سیاسی وڈیرے‘ کی تقریب پزیرائی کے موقع پر انہوں نے خصوصی نظمانہ تحریر کیا اور 9 جنوری 1994 کو اس تقریب میں پڑھا ۔

اپنے ملک پہ اک مدت سے قائم ہے
گنتی کے ان سرداروں
……..اورجاگیروں کے پانے والوں
کی نسلوں کا راج
آزادی سے بڑھ کر جن کو پیارا تھا
انگریزوں کا تاج!
سوچ رہا ہوں…….. شائد اب کے
قسمت دے دے مظلوموں کا ساتھ
استحصالی ٹولے سے…. پائے قوم نجات
صبح ہوئی تو گونج رہا تھا’
بے ھنگم نعروں کا شور
اپنے خواب کی ہم نے کی…….. من مانی تعبیر
پھر ہے اپنے قبضے میں……. ملت کی تقدیر
پاکستان کا مطلب کیا؟…. …موروثی جاگیر

محسن بھوپالی کی شاعری میں ادب اور معاشرے کے گہرے مطالعے کا عکس نظر آتا ہے۔ انہوں نے جاپانی ادب کا اردو میں ترجمہ کیا اور ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی۔

اگر یہی ہے شاعری تو شاعری حرام ہے
خرد بھی زیر دام ہے ، جنوں بھی زیر دام ہے
ہوس کا نام عشق ہے، طلب خودی کا نام ہے

ان کی شاعری کے موضوعات معاشرتی اور سیاسی حالات ہوتے تھے۔ ان کے ایک قطعے کو بھی خوب شہرت حاصل ہوئی۔

جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے
مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
ہم مصلحت وقت کے قائل نہیں یارو
الزام جو دینا ہو، سر عام دیا جائے

سنہ 1988 میں ان کے گلے کے سرطان کا کامیاب آپریشن کیا گیا، اس کے بعد انہیں بولنے میں دشواری ہوتی تھی مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے زندگی کے معمولات جاری رکھے اور مشاعروں میں شرکت کرتے اور شعر پڑھتے رہے۔

اردو ادب کو ایک لافانی ذخیرہ فراہم کرنے والے محسن بھوپالی 17جنوری 2007ء کو دنیا سے رخصت ہوئے اور کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں