تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

’پی آئی بی بہادرآباد تنازع نے ایم کیو ایم کو عوامی سطح پر شدید نقصان پہنچایا‘

کراچی: ایم کیو ایم کے رہنما اور امیدوار علی رضا عابدی نے کہا ہے کہ پی آئی بی اور بہادرآباد تنازع کی وجہ سے پارٹی نے عوام کا اعتماد کھویا، کارکنان یا عوام کی حمایت کیوجہ عمران خان کا مدمقابل ہونا ہے ، آج بھی 60 فیصد کارکنان کی جذباتی وابستگی بانی ایم کیو ایم سے ہی ہے۔

ایم کیو ایم کے رہنما اور قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 243 کے امیدوار علی رضا عابدی نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مختلف سوالات کے جوابات دیے۔

متحدہ امیدواروں کی انتخابی مہم کارکنان اور عوام کی عدم دلچسپی، کیا لندن کے بائیکاٹ کا اعلان اثر انداز ہورہا ہے؟

علی رضا عابدی کا کہنا تھا کہ میرے حلقے کے 60 فیصد کارکنان کی ابھی بھی لندن یا بانی ایم کیو ایم سے وابستگی ہے اور ساتھ میں بائیکاٹ کے اعلان کا اثر بھی ہے جس کی وجہ سے بالخصوص کارکنان اور عوام کوئی دلچسپی نہیں لے رہے البتہ حلقہ این اے 243 میں کئی لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ووٹ نہ دینے کا بولا مگر وہ عمران خان کے مدمقابل ہونے کی وجہ سے مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔

’امیدواروں کی انتخابی مہم شروع ہوئے ابھی تین روز ہوئے آئندہ دنوں میں صورتحال تبدیل ہوگی، ایک روز قبل گلشن اقبال اور گلستان جوہر میں ریلی نکلی جس کے بعد عوام کا تھوڑا بہت جذبہ بیدار ہوتا نظر آیا‘۔

’بائیکاٹ کا اعلان ایم کیو ایم پاکستان کی انتخابی مہم پر اثر انداز ہوسکتا ہے  اور اگر ایسا ہوگیا تو ہم پانچ سال کے لیے باہر ہوجائیں گے، یہ صرف جماعت ہی نہیں بلکہ کراچی کے لیے بھی نقصان دہ ہے، لندن کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ اعلان واپس لے اگر 40 فیصد ٹرن آؤٹ آگیا تو واپسی کے راستے ہمیشہ کے لیے بند ہوسکتے ہیں‘۔

پی آئی بی اور بہادر آباد تنازع کی وجہ کیا بنی او ر اس سے کیا اثرات مرتب ہوئے؟

علی رضا عابدی کا کہنا تھا کہ ’ہمارے درمیان تنازع کی وجہ کامران ٹیسوری بنے اور لڑائی ساس بہو والی تھی، یہ بالکل ایسی بات ہے کہ وہ فاروق ستار کے قریب ہوگئے پھر رابطہ کمیٹی کو اُن پر اعتراض ہونے لگا، اگر وہ دیگر اراکین کے ساتھ رہتے تب یہ معاملہ  پیش نہیں آتا‘۔

’ہمارے درمیان تنازع سے ایک بات سامنے آئی کہ ہم علیحدہ دھڑوں کی صورت میں تو چل سکتے ہیں مگر عوام ہمیں کبھی تسلیم نہیں کریں گے، کیونکہ یہ جتنے دنوں یہ معاملہ چلا کارکنان اور عوام نے ہمیں بہت سخت پیغامات بھجوائے،  دونوں طرف کے رہنماؤں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب کسی بھی صورت جھگڑا نہیں کیا جائے گا یا پھر یہ نوبت نہیں آئے گی کہ علیحدگی ہو وگرنہ کارکن اور ہمدرد ہمیں پھر تسلیم نہیں کریں گے۔

‘کافی ووٹر بھی اسی تنازع کی وجہ سے  بدظن ہوئے، اسی وجہ سے گراؤنڈ پر  جن لوگوں کی نظریں تھیں وہ آگئے البتہ ووٹر آج بھی خواہش رکھتا ہے کہ ایم کیو ایم ہی دوبارہ کامیاب ہو، لوگوں کو ہم سے شکایتیں ہیں جنہیں دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے‘۔

ایم کیو ایم کے رہنما کا کہنا تھا کہ ’متحدہ سے جڑے کئی لوگ معجزے کے منتظر ہیں جو ماضی میں بھی ہوئے، ممکن ہے آئندہ کوئی ایسا معجزہ سامنے آئے جس کے بعد ساری صورتحال تبدیل ہوجائے‘۔

’ایم کیو ایم انتخابات کے بعد پانچ فروری والی پوزیشن پر واپس آجائے گی، کامران ٹیسوری اگر اتنے ہی نظریاتی تھے تو اُن کو پانچ حلقوں سے بطور آزاد امیدوار ایم کیو ایم کے مخالف امیدوار نہیں بننا تھا، پی آئی بی کے رہنماؤں میں سے اکثر بہادرآباد واپس آگئے بقیہ شاہد پاشا کے ساتھ کچھ لوگوں کو تکلیف ہے جن سے اب کوئی رابطہ نہیں‘۔

 پیپلزپارٹی اور پاک سرزمین پارٹی کا مستقبل کیا ہے؟

’پی ایس پی رہنماء تو 26 کے بعد واپسی کا ٹکٹ کٹوائیں گے ، پاک سرزمین پارٹی کے کئی کارکنان ہمارے رابطے میں آگئے اور وہ دوبارہ شمولیت کررہے ہیں، کورنگی سمیت کئی علاقوں سے لڑکے دوبارہ ایم کیو ایم میں آئے‘۔

’پیپلزپارٹی کا بھی کراچی میں خاطر خواہ مستقبل نہیں، شہلا رضا اس حلقے سے میری مخالف امیدوار ہیں، وہ کس منہ سے کراچی والوں سے ووٹ مانگ رہی ہیں کہ انہوں نے تو سندھ اسمبلی کے فلور پر شہر کے مسائل کو اجاگر تک نہیں کرنے دیا اور اگر ایم کیو ایم نے کوئی قرار داد پیش کرنے کی کوشش کی تو بطور اسپیکر انہوں نے آواز دبائی اس کے برعکس آغا سراج درانی نے متعدد بار ہمارے مسائل سنے، قرار داد پر بات کی‘۔

علی رضا عابدی نے الزام دعویٰ کیا کہ ’ایم کیو ایم سے پیپلزپارٹی میں جانے والے کارکنان رابطے میں ہیں، اُن کے معاشی مسائل ہیں جس کی وجہ سے وہ دوسری طرف جاکر بیٹھے، پی پی قیادت انہیں ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہ ادا کررہی ہے‘۔

الیکشن جیتنے کے بعد ایم کیو ایم کی حکمت عملی کیا ہوگی؟

’ہم صوبے میں مخلوط حکومت بنائیں گے اور ساتھ شامل ہونے والی جماعتوں کے ساتھ مردم شماری کا پانچ آڈٹ ، صوبے یا انتظامی یونٹ کے قیام سمیت دیگر شہر کے حق میں قوانین بنائیں گے‘۔

’مردم شماری کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں ایم کیو ایم نے درخواست دائر کی ہوئی ہے، ہم نے مردم شماری یا حلقہ بندیوں کو تسلیم نہیں کیا بلکہ قانون کے تحت اعتراضات جمع کرائے‘۔

عمران خان کے مد مقابل ہونے کی وجہ سے کارکنان اور ہمدردوں کی زیادہ حمایت مل رہی ہے؟

’گلشن اقبال اور حلقہ این اے 243 ایم کیو ایم کے لیے بہت اہم نشست ہے کیونکہ یہاں سے عمران خان بھی کھڑے ہوئے، کارکنان یا عوام کا رجحان دیگر امیدواروں کے مقابلے میں میری طرف اس لیے ہے اور اُن کی خواہش ہے کہ کم از کم یہ نشست متحدہ جیت جائے‘۔

حلقہ این اے 243 میں گلشن ٹاؤن کی کارکردگی بہت بہتر رہی، عوام کے تحفظات اور شکایات سامنے آئے اور اُن کی ناراضی بھی دور ہوئی، دراصل 25 جولائی پی پی اور تحریک انصاف کا مقابلہ دوسری اور تیسری پوزیشن کے لیے ہے‘۔

واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 243 میں کُل ووٹر کی تعداد 4 لاکھ ایک ہزار ہے جبکہ یہاں 9 یونین کونسلز اور 36 وارڈز  ہیں جو گلشن اقبال اور گلستان جوہر میں موجود ہیں۔


خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

Comments

- Advertisement -
عمیر دبیر
عمیر دبیر
محمد عمیر دبیر اے آر وائی نیوز میں بحیثیت سب ایڈیٹر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں